رَّبَّنَا إِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِيًا يُنَادِي لِلْإِيمَانِ أَنْ آمِنُوا بِرَبِّكُمْ فَآمَنَّا ۚ رَبَّنَا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَكَفِّرْ عَنَّا سَيِّئَاتِنَا وَتَوَفَّنَا مَعَ الْأَبْرَارِ
اے ہمارے رب! بے شک ہم نے ایک آواز دینے والے کو سنا، جو ایمان کے لیے آواز دے رہا تھا کہ اپنے رب پر ایمان لے آؤ تو ہم ایمان لے آئے، اے ہمارے رب! پس ہمیں ہمارے گناہ بخش دے اور ہم سے ہماری برائیاں دور کر دے اور ہمیں نیکوں کے ساتھ فوت کر۔
دعوت ایمان : (ف ١) ان آیات میں بتایا گیا ہے کہ آسمان وزمین کے متعلق صحیح غور وفکر ذوق عبادت و ایمان کی روح پیدا کردیتا ہے ، حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے روایت ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رات کو اٹھتے ، آسمان کی طرف چشم بصیرت سے دیکھتے اور غور و فکر کی وجہ سے بےاختیار پکار اٹھتے کہ (آیت) ” ربنا ما خلقت ھذا باطلا “۔ اور سوچو کیا یہی وہ نتیجہ نہیں جو ایک مفکر طبیعات کے دماغ میں پہلے پہل چمکتا ہے ، تم خود کائنات کے اسرار وکفایا کے متعلق حکیمانہ تدبر سے کام لو ذرہ ذرہ سے یہی صدا سنائی دے گی (آیت) ” ربنا ما خلقت ھذا باطلا ۔ قرآن حکیم کا یہ مخصوص انداز دلائل ہے کہ وہ ایسے حقائق پیش کرتا ہے جو معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے ہی غور وفکر کے نتائج ہیں ۔ یہ آیات فلسفہ ومذہب کے قریب ترین حدود سے ہمارا تعارف کراتی ہے ، ہر صحیح الدماغ اور عقل مند انسان جب دعوت ایمان وایقان پر غور کرتا ہے تو کہہ اٹھتا ہے ” امنا “ کہ اے رب ہم نے تیری طرف بلانے والے کی آواز کو سنا ، اس لئے ہم آج سے ایمان کے شیدائی ہیں ۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ سے مطالبہ استغفار وتکفیر گناہ ہے ، اور خدا کا وعدہ ہے کہ ہم تمہارے اعمال کو ضائع نہیں کریں گے تمہیں جنت میں جگہ دیں گے اور تمام گناہوں کو معاف کردیں گے یہ اس لئے تم نے صرف ہماری خاطر آرام وآسائش کو چھوڑا ۔ ہجرت اختیار کی اور کڑی سے کڑی مصیبتیں جھیلیں ، اہل کفر سے لڑے اور جام شہادت نوش کیا ، یعنی حسن ماب یا بہترین زندگی ایثار وقربانی ہی سے حاصل ہوتی ہے اور صحیح ایمان وہی ہے جو مسلمان کو کفر والحاد پر آتش زیر پا کر دے ، وہ مجبور ہوجائے کہ اس سے لڑے ۔ حل لغات : الابرار : نیک ۔ صالح ۔