كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ ۗ وَإِنَّمَا تُوَفَّوْنَ أُجُورَكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۖ فَمَن زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَأُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَ ۗ وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا مَتَاعُ الْغُرُورِ
ہر جان موت کو چکھنے والی ہے اور تمھیں تمھارے اجر قیامت کے دن ہی پورے دیے جائیں گے، پھر جو شخص آگ سے دور کردیا گیا اور جنت میں داخل کردیا گیا تو یقیناً وہ کامیاب ہوگیا اور دنیا کی زندگی تو دھوکے کے سامان کے سوا کچھ نہیں۔
(ف ١) اس آیت میں حیات فانی کی بےثباتی کا نقشہ کھینچا ہے کہ ہر شخص جرعہ موت سے کام ودہن تر کرے گا ، اس لئے وہ جو مقصود اصلی ہے نظروں سے اوجھل نہ ہو ، عمر عزیز کا ایک ایک لمحہ نصب العین کی طرف اقدام میں صرف ہو ۔ وہ شخص جو دائمی واخروی زندگی میں آگ کے عذاب سے بچ گیا اور جنت کے زینوں پر چڑھ گیا ، جان لیجئے کہ وہ کامیاب ہے اور جس کی ساری تگ ودو دنیا کے حصول تک محدود رہی ‘ وہ دھوکے میں ہے ۔ دنیا کو (آیت) ” کہنا درست واقعہ ہے ، بڑے بڑے سمجھ دار لوگ دنیا کی صحیح حیثیت سمجھنے سے قاصر ہیں ، قرآن حکیم کا مطلب یہ نہیں کہ دنیا سے فائدہ نہ اٹھایا جائے ، بلکہ یہ ہے کہ دنیا کو نصب العین کا درجہ نہ دیا جائے جس کی تشریح آیندہ آیات میں مذکور ہے ۔