وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ
اور میں نے جنوں اور انسانوں کو پیدا نہیں کیا مگر اس لیے کہ وہ میری عبادت کریں۔
تخلیق انسانی کی غرض وغایت (ف 3) یہ مسئلہ ابتداء سے بہت اہم رہا ہے کہ انسانی تخلیق سے مقصود کیا ہے ؟ فلسفہ سے لے کر مذاہب تک نے اس پر یکساں طبع آزمائی کی ہے ۔ اور بالآخر دونوں نے اعتراف کیا ہے کہ وہ اس کا کوئی تسلی بخش حل دریافت نہیں کرسکے اور یہ جواب نہیں دے سکے کہ انسان کے پیدا ہونے کا آخر مقصد کیا ہے ؟ البتہ قرآن حکیم اپنی زبان میں کہتا ہے کہ میں سوال کا جواب دیتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ انسان کو خلعت وجود سے اس لئے نوازا گیا ہے تاکہ وہ اللہ کی عبادت کرے ۔ مگر کیا عبادت ایسا مفہوم ہے جو اپنے اندر اتنی وسعت رکھتا ہو کہ اسے زندگی کا نصب العین قرار دیا جاسکے یہ چیز قابل غور ہے ۔ جہاں تک قرآنی محاورات کا تعلق ہے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن عبادت کے لفظ کو صرف مخصوص اور متعین نوع کی حرکات کے لئے استعمال نہیں کرتا بلکہ عبادت کا لفظ اس کے نزدیک اس سے کہیں زیادہ وسعت رکھتا ہے ۔ چنانچہ جہاں اللہ تعالیٰ نے اس حقیقت کا اظہار فرمایا ہے کہ ہم اس معاملہ کو زبور میں لکھ لئے ہیں کہ زمین کی وراثت ہمارے نیک بندوں کے مکلف رہے گی ۔ اللہ نے فرمایا ﴿إِنَّ فِي هَذَا لَبَلَاغًا لِقَوْمٍ عَابِدِينَ﴾ نہ اس اظہار واقعہ میں خداكے پرستاروں کے لئے خوشخبری کا اعلان ہے جس كے صاف معنی یہ ہیں کہ طہارت کی حلاوت صرف دلوں تک محدود نہیں ہے بلکہ حکمرانی کا بھی ذریعہ ہے ۔ اور اس کے توسل سے زمین کے خزائن اور اقتدار بھی حاصل ہوتے ہیں کہ گویا خدا کے بندے وہ ہی نہیں ہیں جو صرف دہلیز مسجد سے وابستہ ہوں بلکہ وہ ہیں جن كے زیرپا تخت سلطنت بھی ہوں ۔ اور جہاں سلطان ان کی پاکبازی سے ڈرے ۔ وہاں طاغوتی قومیں بھی اس کے سامنے دبی جھکی رہیں ۔ اسلامی نقطہ نگاہ سے عبادت تعبیر زندگانی اور روحانی نشاط سے اخلاق کی تعمیر سے اور ظاہروباطن کی بالیدگی سے ہے۔کیونکہ اس کے دو پہلو ہیں ایک کا تعلق خالق مطلق سے ہے اور دوسرے کا مخلوق بدوہ ہے ۔ جو ایک طرف تو اللہ کی مخلوق کے حق میں نہایت شفیق ومہرباں اور ہمدرد ہو ۔ اور دوسری طرف اللہ کے مقابلہ میں نہایت عاجز اور منکسر، اور پھر کسب انوار میں یہ چیز اس کے پیش نظر ہو کہ اس کوتعلق باللہ پر عمل پیرا ہونا ہے ۔ اور یہی عبادت کی غرض اور رعایت ہے ۔ اور جب وہ اس پیکر حسن وجمال اور کثرت قدرت وکمال کو اپنا مدنظر ٹھہرائے گا اور کوشش کریگا کہ اپنے میں اس کی تنویرات اور تجلیات کو بقدرطرف منعکس کرے اور پھر وہ واقعی اس مقصد کو پورا کریگا جس کی وجہ سے اس کو پیدا کیا گیا ۔