يَوْمَ نَقُولُ لِجَهَنَّمَ هَلِ امْتَلَأْتِ وَتَقُولُ هَلْ مِن مَّزِيدٍ
جس دن ہم جہنم سے کہیں گے کیا تو بھر گئی؟ اور وہ کہے گی کیا کچھ مزید ہے؟
عجیب ترین بات ف 1: اس سے قبل کی آیتوں میں جہنم والوں کا مرقع تھا ۔ اب ان آیات میں یہ بیان فرمایا ہے ۔ کہ اللہ کے پاکباز بندے جب اس کے حضور میں جائینگے ۔ تو وہ جنت کو بہت ہی قریب پائینگے ۔ اور دیکھیں گے ۔ کہ بلاکسی دقت اور کوفت کے وہ کس طرح ان نعمتوں سے بہرہ مند رہے ہیں ۔ جن کی نسبت ان سے دنیا میں کہا گیا تھا ۔ اس مقام مسرت وہجت میں وہ لوگ ہوں جو دنیا میں رجوع الی اللہ کے جذبات پاک سے مشرف ہیں ۔ جو ہر لمحہ اور ہر منزل اپنے گناہوں کا اعتراف کرنے پر تیار ہوتے ہیں اور کوئی عزت ووقار کا سوال ان کو توبہ وانابت سے باز نہیں رکھ سکتا ۔ جو اس کے احکام اور اس کی بیان کردہ حدود کو اپنی نگاہ میں رکھتے ہیں ۔ اور کوشش کرتے ہیں ۔ کہ کبھی سرتابی اور انکار نہ کریں ۔ وہ جو اس کو دیکھتے تو نہیں ۔ مگر یقین اس درجہ ہے کہ بہر آئینہ اس سے لرزاں اور ترساں رہتے ہیں ۔ ہر وقت خشیت اور خوف سے ان کے بدن پر لرزہ سا طاری رہتا ہے ۔ ان کے دل تقویٰ سے معمور ہیں ۔ جو اسے جس کے سامنے جھکنے کے لئے بےتاب رہتے ہیں ۔ ان لوگوں سے کہا جائیگا ۔ یہ تمہارے لئے مختص ہے ۔ اس میں ہر نوع کی سل امتی کے ساتھ داخل ہوجاؤ۔ اور ہمیشہ ہمیشہ کے لئے افکار کی الجھنوں سے چھوٹ جاؤ*۔ یہ عجیب بات ہے کہ اسلام جس خدا کے تخیل کو پیش کرتا ہے ۔ وہ ایسا ہے جس کو نہ ٹٹول کر معلوم کیا جاسکے نہ آنکھیں اس تک پہنچ سکیں اور نہ فکرودلائل اس کا احاطہ کرسکیں ۔ مگر اس پر مطالبہ یہ ہے کہ نہ صرف ایسی ذات کو تسلیم کرے بلکہ اس کے ساتھ انتہا درجہ کی محبت اور عقیدت بھی رکھو ۔ اس سے ڈرو اور غائبانہ ہر وقت تعلقات کو استوار رکھو ۔ لکین یہ کس قدر تعجب انگیز بات ہے ۔ کہ بت پرستوں اور اصنام پرستوں کے دل میں اتنی محبت موجود نہیں ہے ۔ جن کو وہ روزانہ دیکھتے ہیں اور محسوس کرتے ہیں ۔ جتنی کہ ایک مسلمان کے دل میں اس نادیدہ خدا کی ہے ۔ جو ہمیشہ اپنے جلال وجبروت میں مستور رہتا ہے *۔ حل لغات :۔ اواب ۔ اوب سے ہے ۔ جس کے معنے رجوع کے ہیں * حفیظ ۔ اللہ کے احکام کو نگاہ میں رکھنے والا * فنقبوا ۔ تنقیب سے ہے ۔ جس کے معنے گھومنے پھرنے کے ہیں *۔