سُنَّةَ اللَّهِ الَّتِي قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلُ ۖ وَلَن تَجِدَ لِسُنَّةِ اللَّهِ تَبْدِيلًا
اللہ کے اس طریقے کے مطابق جو پہلے سے گزر چکا ہے اور تو اللہ کے طریقے میں ہرگز کوئی تبدیلی نہیں پائے گا۔
اللہ کا فیصلہ ف 2: غرض یہ ہے ۔ کہ مقام حدیبیہ پر جو صلح کا اقرارنامہ مرتب ہوا ۔ اس وقت مکے والوں کا بھی فائدہ تھا ۔ وہ اگر جنگ کے در پے ہوتے اور صلح کے لئے آمادہ نہ ہوتے ۔ تو یہ بات یقینی تھی ۔ کہ وہ بری طرح شکست سے دوچار ہوتے ناممکن تھا کہ وہ بہادران اسلام کا مقابلہ کرسکتے ۔ کیونکہ یہ اللہ کی سنت جارہی سے ۔ کہ پیغمبروں کے ماننے والے ہمیشہ اپنے دشمنوں پر غالب رہتے ہیں ۔ یہ مقدارات میں سے ہے ۔ کہ جب جنگ ہوتا حق اور باطل کے درمیان ہو ۔ جب آویزش ہو ، نورا اور ظلمت میں اور جب تصادم ہوجائے ظالم اور مظلوم کے درمیان تو پھر فتح ونصرت اس طرف ہونی ہے ۔ جس طرف حق ہو ۔ نور ہو اور مظلومیت ہو ۔ اللہ تعالیٰ کے اس مسلک میں بھی تبدیلی نہیں ہوتی اور اس قانون کے نفاذ میں صدیوں اور قرنوں کے گزرنے پر بھی خلاف نہیں ہوتا ۔ یہ اسی طرح درست ہے جس طرح یہ درست ہے ۔ کہ دریا نس وخاشاک کو بہاکر لے جاتا ہے ۔ اور جس طرح یہ صحیح ہے ۔ کہ آگ ہر چیز کو جو اس میں ڈال دی جائے ۔ جلا کر راکھ کا ڈھیر بنادیتی ہے ۔ آدم (علیہ السلام) سے لے کر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک کئی ہزار انبیاء تشریف لائے ہیں ۔ اور پھر لاکھوں انسانوں نے ان کی مخالفت بھی کی ہے *۔ لیکن آپ نے تاریخ اقوام والم میں اس بات میں نمایاں طور پر دیکھا ہوگا ۔ ککہ جب بھی ان لوگوں نے سرکشی اور تمرد کا اظہار کیا ہے ۔ اللہ کا غضب بھڑکا اور ان ظالموں اور نافرمانوں کو صفحہ ہستی سے حرف غلط کی طرح مٹا دیا گیا ۔ اور اس بات کی پرواہ نہیں کی گئی ۔ کہ یہ لوگ قلعوں اور بڑے بڑے محلات کے مال ہیں ۔ ان کے پاس سیم وزر کے انبار ہیں ۔ ان کے پاس رہنے کے لئے عمدہ عمدہ باغات ہیں ۔ اور یہ زندگی کی ہر آسودگی سے بہرہ مند ہیں ۔ بلکہ جب اللہ کا عذاب آیا ہے ۔ تو یہ لوگ زندگی کی ہر آسائیش سے محروم ہوگئے ہیں ۔ اور ان کی بدبختیوں نے ان کو چاروں طرف سے گھیر لیا ہے *۔ حل لغات :۔ ایۃ ۔ نشانی * اطفرکم علیھم ۔ تم کو ان پر قابو دے دیا *