سورة الفتح - آیت 15

سَيَقُولُ الْمُخَلَّفُونَ إِذَا انطَلَقْتُمْ إِلَىٰ مَغَانِمَ لِتَأْخُذُوهَا ذَرُونَا نَتَّبِعْكُمْ ۖ يُرِيدُونَ أَن يُبَدِّلُوا كَلَامَ اللَّهِ ۚ قُل لَّن تَتَّبِعُونَا كَذَٰلِكُمْ قَالَ اللَّهُ مِن قَبْلُ ۖ فَسَيَقُولُونَ بَلْ تَحْسُدُونَنَا ۚ بَلْ كَانُوا لَا يَفْقَهُونَ إِلَّا قَلِيلًا

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

عنقریب پیچھے چھوڑ دیے جانے والے لوگ کہیں گے جب تم کچھ غنیمتوں کی طرف چلو گے، تاکہ انھیں لے لو، ہمیں چھوڑو کہ ہم تمھارے ساتھ چلیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے کلام کو بدل دیں۔ کہہ دے تم ہمارے ساتھ کبھی نہیں جاؤ گے، اسی طرح اللہ نے پہلے سے کہہ دیا ہے۔ تو وہ ضرور کہیں گے بلکہ تم ہم سے حسد کرتے ہو۔ بلکہ وہ نہیں سمجھتے تھے مگر بہت تھوڑا۔

تفسیرسراج البیان - محممد حنیف ندوی

فتح خبیر کی خوشخبری (ف 1) ان آیات میں منافقین کا ذکر ہے کہ یہ لوگ حضور (ﷺ) کے ساتھ تو گئے نہیں مگر جب آپ حدیبیہ سے لوٹے اور راستے میں یہ سورت نازل ہوئی اور اس میں ان کو خوب ذلیل کیا گیا اور آپ نے اپنے ساتھیوں کو فتح خیبر کی خوشخبری سنائی تو کچھ رسوائی کو مٹانے کی غرض سے اور کچھ مغانم کے حصول کے لئے ان کے دلوں میں شرکت جہاد کی خواہش پیدا ہوئی ۔ اور انہوں نے چاہا کہ یہ بھی اس میں آپ کے ساتھ دیں ۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ کیا یہ لوگ کلام الٰہی کو بدلنا چاہتے ہیں یہ تو پہلے ہی قرار پاچکا ہے کہ اس جنگ میں صرف وہی لوگ جاسکیں گے جو حدیبیہ کے سفر میں حضور (ﷺ) کے ساتھ تھے ۔ اس لئے ان کے لئے شرکت جہاد کا کوئی موقع ہی نہیں ۔ ہاں اگر ایسا ہی شوق ہے تو اس وقت تک انتظار کرو جب تک ایک زبردست قوم کا سامنا ہو ۔ اس وقت اگر تم گرمجوشی کے ساتھ لڑے اور داد شجاعت دی تو پھر اللہ تعالیٰ تمہارے گناہوں کو معاف کردیگا اور تم کو بہت بڑے اجر سے نوازے گا ۔ حضرت عبداللہ بن عباس سے روایت ہے کہ یہ موعودہ جنگ وہ تھی جو حضرت عمر کے زمانہ میں عجمیوں سے ہوئی ۔ حل لغات : الْمُخَلَّفُونَ ۔ جہاد سے پیچھے رہ جانے والے ۔ مَغَانِمَ ۔ جمع غنم بمعنی غنیمت مال جو جنگ میں کفار سے حاصل کیا جائے ۔