سورة الفتح - آیت 12

بَلْ ظَنَنتُمْ أَن لَّن يَنقَلِبَ الرَّسُولُ وَالْمُؤْمِنُونَ إِلَىٰ أَهْلِيهِمْ أَبَدًا وَزُيِّنَ ذَٰلِكَ فِي قُلُوبِكُمْ وَظَنَنتُمْ ظَنَّ السَّوْءِ وَكُنتُمْ قَوْمًا بُورًا

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

بلکہ تم نے گمان کیا کہ رسول اور ایمان والے کبھی اپنے گھر والوں کی طرف واپس نہیں آئیں گے اور یہ بات تمھارے دلوں میں خوشنما بنا دی گئی اور تم نے گمان کیا، برا گمان اور تم ہلاک ہونے والے لوگ تھے۔

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

منافقین کی بزدلی ف 1: یعنی ایک طرف تو مسلمانوں کی جماعت حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ تھی ۔ جو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مصیبت میں نکل کھڑی ہوئی تھی ۔ اور ایک منافقین تھے جن کی بزدلی اور بددلی کے جذبات غالب تھے ۔ کہ یہ لوگ مکہ کی طرف بڑھے تو ہیں ۔ اگر قریش کی فوجوں کے ساتھ تصادم ہوگیا ۔ تو پھر واپس نہیں لوٹیں گے گویا ان کے دلوں میں مایوسی تھی ۔ اور اللہ کے متعلق حسن نش موجود نہ تھا تھا ۔ فرمایا ۔ یہ محض تمہارا ظن تھا ۔ جو شیطان نے تیقن کی شکل میں سنوار کر تمہارے سامنے پیش کیا ۔ اور تم نے تسلیم کرلیا حقیقت یہ ہے کہ تم ایسی جماعت ہو ۔ جسے ہلاکت اور بربادی پسند ہے ۔ تم نے اس بات پر غور نہیں کیا ۔ کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو کیونکر ذلیل ورسوا کرسکتا ہے ؟ یہ کیونکر ممکن ہے ۔ کہ مومن لوگ تو اس کے دین کی حفاظت کے لئے سربکف ہوکر اپنے گھروں سے نکل کھڑے ہوں ۔ اور وہ جو ارحم الراحمین ہے ان کے لئے کچھ نہ کرے ۔ وہ تو اپنے ماننے والوں کو اور اپنے وابستگان عقیدت کو عزت واحترام کے مقامات پر فائز کرتا ہے ۔ اور مخالفوں کو دکھادیتا ہے ۔ کہ کیونکر ان کی ساری تدبیریں ناکام رہتی ہیں ۔ اور کس طرح باوجود ظاہری شان وشوکت کے وہ شکست یاب ہوجاتے ہیں *۔ حل لغات :۔ بورا ۔ واد ، ثقلبہ ، اور جمع سب کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ بمعنی ہلاک ہونے والے *