وَلِيَعْلَمَ الَّذِينَ نَافَقُوا ۚ وَقِيلَ لَهُمْ تَعَالَوْا قَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَوِ ادْفَعُوا ۖ قَالُوا لَوْ نَعْلَمُ قِتَالًا لَّاتَّبَعْنَاكُمْ ۗ هُمْ لِلْكُفْرِ يَوْمَئِذٍ أَقْرَبُ مِنْهُمْ لِلْإِيمَانِ ۚ يَقُولُونَ بِأَفْوَاهِهِم مَّا لَيْسَ فِي قُلُوبِهِمْ ۗ وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا يَكْتُمُونَ
اور تاکہ وہ ان لوگوں کو جان لے جنھوں نے منافقت کی اور جن سے کہا گیا آؤ اللہ کے راستے میں لڑو، یا مدافعت کرو تو انھوں نے کہا اگر ہم کوئی لڑائی معلوم کرتے تو ضرور تمھارے ساتھ چلتے۔ وہ اس دن اپنے ایمان (کے قریب ہونے) کی بہ نسبت کفر کے زیادہ قریب تھے، اپنے مونہوں سے وہ باتیں کہتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں اور اللہ زیادہ جاننے والا ہے جو وہ چھپاتے ہیں۔
(ف ٢) اس آیت میں ترک جہاد کو کفر سے تعبیر کیا ہے ، یعنی وہ لوگ جو وقت آنے پر حیل وتدابیر تراشتے رہتے ہیں ‘ ان کی دوں ہمتی انہیں میدان جہاد میں نکلنے نہیں دیتی ، انہیں اپنے ایمان کی تجدید کرنا چاہئے ، مسلمان روز ازل سے توحید کا اقرار کرچکا ہے ، اس کے لئے ناممکن ہے کہ ایک لمحہ بھی کفر سے موالات رکھے ، کم از کم اس کے دل میں ضرور کفر واستبداد کے خلاف جذبات نفرت وحقارت موجزن رہتے ہیں اور اگر یہ بھی نہیں تو قرآن حمید کی یہ ڈانٹ سن رکھیں (آیت) ” ھم للکفر یومئذ اقرب منھم لل ایمان “۔ یعنی اس دن وہ لوگ ایمان کی نسبت کفر کے زیادہ قریب تھے ۔