ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمُ اتَّبَعُوا مَا أَسْخَطَ اللَّهَ وَكَرِهُوا رِضْوَانَهُ فَأَحْبَطَ أَعْمَالَهُمْ
یہ اس لیے کہ بے شک انھوں نے اس چیز کی پیروی کی جس نے اللہ کو ناراض کردیا اور اس کی خوشنودی کو برا جانا تو اس نے ان کے اعمال ضائع کردیے۔
منافقین کا جہاد سے فرار ف 1: ان آیات میں اس گروہ کا ذکر ہے ۔ جن کو منافقین کے نام سے موسوم کیا گیا ہے ۔ یہ لوگ بظاہر مسلمانوں کے ساتھ تھے ۔ مگر بیاظن اہل کفر وشرک کے ساتھ ساز بازرکھتے تھے ۔ اور موقع کی تلاش میں رہتے تھے ۔ کہ جب مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کا احتمال وامکان ہو ۔ تو اس وقت اپنی شام قوتوں کو صرف کردیا جائے ۔ اور اپنی دوستی کی وجہ سے دشمنوں کو مدد پہنچائی جائے ۔ فرمایا کہ ہدایت کے واضح ہوجانے کے بعد بھی جب ان لوگوں نے مسلمانوں سے تعلقات مو وت واخوت منقطع کررکھے ہیں ۔ اور میدان جہاد سے فرار اختیار کیا ہے ۔ تو محض اس لئے کہ یہ شیطان کے چکر میں آگئے ہیں ۔ اور اس نے اللہ کو ڈھیل دے دی ہے تاکہ اپنی تدبیروں میں وہ کامیاب ہوسکے ۔ ان لوگوں اور مفکرین کے درمیان گہرے تعلقات میں اور انہوں نے پوشیدہ پوشیدہ حدود امانت کا عہد کررکھا تھا ۔ مگر اللہ تعالیٰ ان خفیہ کاروائیوں کو جانتے ہیں ۔ اس لئے یہ قطعاً ممکن نہیں ہے کہ اس طرح یہ لوگ مسلمانوں کو نقصان پہنچاسکیں ۔ ارشاد فرمایا ۔ کہ جب فرشتے ان کی جان قبض کرنے کے لئے آئیں گے ۔ اور ان کے منہ اور پشت پر کوڑے برسائیں گے ۔ اس وقت ان کے پاس کیا عذر ہوگا ۔ اور کس طرح یہ لوگ اس تکلیف سے بچ سکیں گے ؟*۔ حل لغات :۔ سولی لھم ۔ تجویز بنائی * فاحبط اعمالھم ۔ یعنی چونکہ دوں میں کفر ونفاق کا مرض موجود تھا ۔ اس لئے اللہ نے ان کے سب اعمال عدم کردیئے *۔