فَهَلْ يَنظُرُونَ إِلَّا السَّاعَةَ أَن تَأْتِيَهُم بَغْتَةً ۖ فَقَدْ جَاءَ أَشْرَاطُهَا ۚ فَأَنَّىٰ لَهُمْ إِذَا جَاءَتْهُمْ ذِكْرَاهُمْ
تو وہ کس چیز کا انتظار کر رہے ہیں سوائے قیامت کے کہ وہ ان پر اچانک آجائے، پس یقیناً اس کی نشانیاں آچکیں، پھر ان کے لیے ان کی نصیحت کیسے ممکن ہوگی، جب وہ ان کے پاس آجائے گی۔
اللہ کا قانون ف 1: رشدوہدایت اور ضلالت وگمراہی کے متعلق اس کا قانون یہ ہے ۔ کہ وہ کسی شخص کے اعمال میں مداخلت نہیں کرتا ۔ اور کسی شخص کو مجبور نہیں کرتا ۔ کہ وہ اپنے لئے ان دوراہوں میں سے کسی ایک راہ کو ضرور اختیار کرے ۔ اس کا کام صرف یہ ہے ۔ کہ وہ حقیقت حال سے آگاہ کردے ۔ پیغمبروں کے بھیجے ۔ اور کتابوں کو نازل کرے ۔ تاکہ انسان عقل وبصیرت کی روشنی میں اپنا نصیب العین تجویز کرے ۔ اور پھر سمجھ سوچ کر کسی پک ڈنڈی پر ہولے ۔ جب یہ ہوتا ہے کہ کوئش شخص عمداً خواہشات کی پیروی کے جنون میں حق وصداقت کی آواز کو نہ سننا چاہے ۔ اور آفتاب کی طرح روشن حقائق کو ٹھکرا دے ۔ تو پھر وہ اس سے توفیق ہدایت کو چھین لینا ہے ۔ اس کے معنے یہ ہوتے ہیں ۔ کہ وہ بدبختی اور محرومی میں اس منزل تک پہنچ گیا ہے جہاں اب حصول ہدایت کے لئے کوئی موقع باقی نہیں رہا ۔ اور جب کوئی اللہ کا بندہ قبولیت وپذیرائی کے لئے آگے بڑھتا ہے ۔ اور یہ معلوم کرنا چاہتا ہے ۔ کہ حق وباطل میں کون راہ منزل مقصود تک لے جانے والی ہے ۔ تو پھ روہ اس کی اعانت کرتا ہے ۔ اور اس کے لئے ہدایت کی راہوں کو روخن اور واضح کردیتا ہے ۔ جس کی وجہ سے یہ محسوس کرتا ہے کہ میرے ساتھ اللہ کی امداد ہے اور میں اس کی ہمدردیوں سے بدرجہ غایت بہرہ مند ہوں *۔