وَإِذْ صَرَفْنَا إِلَيْكَ نَفَرًا مِّنَ الْجِنِّ يَسْتَمِعُونَ الْقُرْآنَ فَلَمَّا حَضَرُوهُ قَالُوا أَنصِتُوا ۖ فَلَمَّا قُضِيَ وَلَّوْا إِلَىٰ قَوْمِهِم مُّنذِرِينَ
اور جب ہم نے جنوں کے ایک گروہ کو تیری طرف پھیرا، جو قرآن غور سے سنتے تھے تو جب وہ اس کے پاس پہنچے تو انھوں نے کہا خاموش ہوجاؤ، پھر جب وہ پورا کیا گیا تو اپنی قوم کی طرف ڈرانے والے بن کر واپس لوٹے۔
جنات کا وجود ف 2: جنوں کے متعلق آج سے پہلے اہل تاویل کا مسلک یہ تھا ۔ یہ انسانوں کا ایک گروہ ہے جو عام طور پر پہاڑوں اور جنگلوں میں رہتا ہے ۔ انہیں لوگوں نے طائف سے واپسی کے وقت قرآن کو سنا *۔ قوم جن نے تعجب اور حیرت سے اپنی قوم کو قرآن کے سننے کا مژدہ سنایا ۔ ابن کو جن اس مناسبت سے کہا گیا ۔ کہ یہ لوگ عام لوگوں کی نظروں پے پوشیدہ اور مستتر رہتے ہیں ۔ اور شہر والوں سے ان کے تعقات زیادہ نہیں ہوتے ۔ مگر یہ تاویل اب بالکل مہمل ثابت ہوچکی ہے ۔ کیونکہ جو مجبوری اس مسئلہ میں تھی ۔ اب وہ دور ہوگئی ۔ تجربات کی روشنی میں معلوم ہوگیا ہے ۔ کہ جنات ایک مستتر اور نظر نہ آنے والی مخلوق ہے ۔ اب خود یورپ نے جو دانش وعقل کا سب سے زیادہ مدعی ہے ۔ جنات کے وجود کو تسلیم کرلیا ہے ۔ بلکہ ان کے وظائف اور اعمال تک معلوم کرلیا ہے ۔ جدید تحقیقات یہ ہے ۔ کہ جن ایک لطیف ذی روح مخلوق ہے جس کا وزن ہے ۔ سوچنی اور سمجھتی ہے ۔ اور جس کی قوتیں اور حواس انسان سے زیادہتیز اور بڑھ کر ہیں ۔ وہ دیکھی نہیں جاسکتی ۔ البتہ جب وہ عام مادی اشیاء کو اپنے ارادوں کی تکمیل کے لئے استعمال کرتی ہے ۔ تو اس وقت اس کے وجوہ کا پتہ چلتا ہے ۔ یہ تاویل کہ جن انسان ہی کی ایک صنف کا نام ہے ۔ نہ صرف واقعات کے اعتبار سے غلط ہے ۔ بلکہ صفت قرآن اور حدیث کے اعتبار سے بھی غلط ہے اور اصل میں یہ نتیجہ ہے ۔ کہ ایک طرح کی مرعوبیت اور شوق اجتہاد کا *۔ غرض یہ ہے کہ جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیغام کو مکے والوں نے تسلیم نہ کیا تو آپ برداشتہ خاطر ہوکر طائف کی طرف چل دیئے ۔ کہ شاید ان لوگوں کو قبول ہدایت کی توفیق حاصل ہو ۔ جب وہاں پہنچے تو ان لوگوں نے اور زیادہ بدبختی (محرومی) اور شقاوت کا ثبوت دیا ۔ وہاں سے بھی مایوسانہ لوٹ کر آرہے تھے ۔ کہ راستہ میں جنوں کے گروہ نے قرآن کی سماعت کی ۔ اور تسلیم کرلیا ۔ کہ یہ اللہ کا پیغام ہے ۔ بلکہ قرآن کے داعی بھی بن گئے ۔ چنانچہ جب یہ قوم کے پاس گئے ۔ تو انہوں نے برملا کہا ۔ کہ ہم نے ایک عجیب صحیفہ رشدوہدایت کو سنا ہے ۔ جو موسیٰ کے بعدنازل ہوا ہے ۔ اور پہلی کتابوں کی تصدیق کرتا ہے اور حق وصداقت کی جانب رہنمائی کرتا ہے ۔ صراط مستقیم کی جانب بلاتا ہے ۔ اور اللہ کی سچی آواز ہے اے قوم ضرور اس کو قبول کرلو ۔ خدا تمہارے گناہوں کو اس کے صلہ میں بخش دیگا ۔ اور آخرت کے دردناک عذاب سے بچا رہیگا ۔ یاد رکھو اگر تم نے نہ مانا ۔ تو یہ تمہاری بدقسمتی ہوگی ۔ اللہ کا دین بہر آئینہ پھیلے گا ۔ اور تمہاری پوری قوت بھی اس کو روک دینے پر قادر نہیں ہے *۔ حل لغات :۔ یجحدون ۔ جھود سے ہے ۔ یعنی انکار کرتا *۔ نفرا ۔ ایک جماعت *۔