وَوَصَّيْنَا الْإِنسَانَ بِوَالِدَيْهِ إِحْسَانًا ۖ حَمَلَتْهُ أُمُّهُ كُرْهًا وَوَضَعَتْهُ كُرْهًا ۖ وَحَمْلُهُ وَفِصَالُهُ ثَلَاثُونَ شَهْرًا ۚ حَتَّىٰ إِذَا بَلَغَ أَشُدَّهُ وَبَلَغَ أَرْبَعِينَ سَنَةً قَالَ رَبِّ أَوْزِعْنِي أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِي أَنْعَمْتَ عَلَيَّ وَعَلَىٰ وَالِدَيَّ وَأَنْ أَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضَاهُ وَأَصْلِحْ لِي فِي ذُرِّيَّتِي ۖ إِنِّي تُبْتُ إِلَيْكَ وَإِنِّي مِنَ الْمُسْلِمِينَ
اور ہم نے انسان کو اس کے ماں باپ کے ساتھ نیکی کرنے کی تاکید کی، اس کی ماں نے اسے ناگواری کی حالت میں اٹھائے رکھا اور اسے ناگواری کی حالت میں جنا اور اس کے حمل اور اس کے دودھ چھڑانے کی مدت تیس مہینے ہے، یہاں تک کہ جب وہ اپنی پوری قوت کو پہنچا اور چالیس برس کو پہنچ گیا تو اس نے کہا اے میرے رب! مجھے توفیق دے کہ میں تیری اس نعمت کا شکر کروں جو تو نے مجھ پر اور میرے ماں باپ پر انعام کی ہے اور یہ کہ میں وہ نیک عمل کروں جسے تو پسند کرتا ہے اور میرے لیے میری اولاد میں اصلاح فرما دے، بے شک میں نے تیری طرف توبہ کی اور بے شک میں حکم ماننے والوں سے ہوں۔
ف 1: وحملہ وفضالہ ثلثون شھرا کے معنے یہ ہیں کہ عمل کی اقل مدت چھ مہینے ہیں ۔ اور باقی دو سال دودھ پلانے کے لئے ہیں چنانچہ ایک دفعہ جب حضرت عمر (رض) نے ایک عورت کو رجم کرنے کا حکم دیا ۔ جب کہ اس نے چھ مہینے کے بعدوضع حمل سے فراغت پائی ۔ تو حضرت علی (رض) نے ان کو روک دیا ۔ اور ثبوت میں یہ آیت پیش فرمائی *۔ پوری عمر * وبلغ اربعین سنتہ قال رب اوزعنی (الآیہ) سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کے مطابق عمر کا وہ حصہ جس میں انسان صحیح معنوں میں تشکرواستنان کی ذمہ داریوں کو سمجھنے کے قابل ہوتا ہے ۔ چالیس سال کا ہے یہی وجہ ہے ۔ انبیاء بھی اسی عمر میں پہنچ کر عہدہ نبوت پر فائز ہوتے ہیں ۔ اور اصل کام کرنے کا وقت اس منزل سے گزرجانے کے بعد ہوتا ہے ۔ مگر آج کل ہمارے نوجوان تیس سال کی عمر میں خاصے بوڑھے ہوجاتے ہیں ۔ اور ان میں زندگی کا کوئی ولولہ موجود نہیں رہتا ۔ اور چالیس سال کی زندگی میں تو وہ قبر کی آغوش میں جاسوتے ہیں ۔ انا للہ وانا الیہ راجعون *۔ حل لغات :۔ کرھا ۔ مشقت وکلفت * اشدہ ۔