قُلْ أَرَأَيْتُمْ إِن كَانَ مِنْ عِندِ اللَّهِ وَكَفَرْتُم بِهِ وَشَهِدَ شَاهِدٌ مِّن بَنِي إِسْرَائِيلَ عَلَىٰ مِثْلِهِ فَآمَنَ وَاسْتَكْبَرْتُمْ ۖ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ
کہہ دے کیا تم نے دیکھا اگر یہ اللہ کی طرف سے ہوا اور تم نے اس کا انکار کردیا اور بنی اسرائیل میں سے ایک شہادت دینے والے نے اس جیسے (قرآن) کی شہادت دی، پھر وہ ایمان لے آیا اور تم نے تکبر کیا ( تو تمھارا انجام کیا ہوگا) بے شک اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔
پیغمبر بشر ہوتا ہے (ف 2) قرآن میں یہ خوبی ہے کہ اس نے نبوت کے مفہوم پر کوئی غبار نہیں رہنے دیا ۔ صاف صاف اس حقیقت کا اظہار کردیا ہے کہ پیغمبر باوجود جلالت قدر کے ایک انسان ہوتا ہے اور اس میں وہی بشری لوازم ہوتے ہیں جن کا ہونا انسان میں ضروری ہے ۔ مکہ والے اس بناء پر کہ پیغمبر فوق البشر ہونا چاہیے حضور (ﷺ) سے بعض مخصوص معجزات کا مطالبہ کرتے تھے اور یہ کہتے تھے کہ آپ ہم کو چند غیب کی باتوں سے اطلاع دیں ۔ اس آیت میں اس چیز کو واضح کیا ہے کہ حضور کی نبوت میں کوئی ندرت اور انوکھا پن نہیں ہے آپ بھی اس قسم کے پیغمبر ہیں جس طرح کہ پہلے انبیاء گزر چکے ہیں ۔ جس طرح وہ محض وحی اور الہام کے تابع تھے ۔ اس طرح آپ بھی پابند ہیں ۔ اپنی جانب سے کسی خرق عادت پر قادر نہیں ۔ اور نہ بغیر اللہ کے آگاہ کرنے کے کسی غیب کی بات سے مطلع ہوسکتے ہیں ۔ یہاں تک کہ آپ باوجود قرآن ایسے عظیم الشان غیب کے حامل ہونیکے یہ نہیں جانتے کہ مستقبل میں کیا ظہور پذیر ہونے والا ہے ۔