سورة الأحقاف - آیت 8

أَمْ يَقُولُونَ افْتَرَاهُ ۖ قُلْ إِنِ افْتَرَيْتُهُ فَلَا تَمْلِكُونَ لِي مِنَ اللَّهِ شَيْئًا ۖ هُوَ أَعْلَمُ بِمَا تُفِيضُونَ فِيهِ ۖ كَفَىٰ بِهِ شَهِيدًا بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ ۖ وَهُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

یا وہ کہتے ہیں کہ اس نے اسے خود گھڑ لیا ہے، کہہ دے اگر میں نے اسے خود گھڑ لیا ہے تو تم میرے لیے اللہ کے مقابلے میں کسی چیز کا اختیار نہیں رکھتے، وہ ان باتوں کو زیادہ جاننے والا ہے جن میں تم مشغول ہوتے ہو، وہی میرے درمیان اور تمھارے درمیان گواہ کے طور پر کافی ہے اور وہی بے حد بخشنے والا، نہایت مہربان ہے۔

تفسیرسراج البیان - محممد حنیف ندوی

میں جھوٹا نہیں ہوں (ف 1) مکے والے آخر تک یہ فیصلہ نہیں کرپاتے کہ قرآن کو کتب وصحائف میں کسی درجہ پر رکھا جائے کبھی وہ اس کی آیتوں کو سنتے تو بوجہ اسکی موثریت کے اس کو جادو سے تعبیر کرتے ، کبھی یہ کہتے کہ حضور (ﷺ) کے دماغی اختراع کا نتیجہ ہے ۔ کبھی یہ کہتے پہلی کتابوں میں سے قصوں اور کہانیوں کولے کر جمع کردیا گیا ہے ۔ اور کبھی کہتے کہ دراصل دوسرے شخص کی دماغی کاوشوں کا ثمرہ ہے ۔ اور حضور (ﷺ) نے اس سے سیکھ لیا ہے اور اپنے نام سے منسوب کرلیا ہے ۔ غرضیکہ انہوں نے اس بات کا پورا ثبوت دیا کہ ان میں کتاب اللہ کی اہمیت کو محسوس کرنے کی زرہ برابر بھی صلاحیت نہیں ۔ وہ کتاب جو انسانی عقول سے بالا ہے ۔ جس میں فصاحت وبلاغت کا وہ التزام ہے جو طاقت بشری سے باہر ہے جس میں زندگی کا وہ قانون مذکور ہے جس کی نظیر صدیوں سے تجربہ بھی پیش نہیں کرسکتا ۔ اور تمام دینی کتابوں پر جس میں اعلیٰ پایہ کی تنقیدیں ہیں ۔ اس کے متعلق اس نوع کے شبہات کا اظہار محض نادانی اور جہالت ہے ۔ فرمایا آپ ان سے کہہ دیجئے کہ مجھ ایسے آدمی کو اللہ پر افتراء کرنے کی کیونکر جرات ہوسکتی ہے ۔ جب کہ مجھے معلوم ہے کہ آپ میں سے کوئی بھی اس کی گرفت سے بچا لینے والا نہیں ۔ اور کسی میں یہ قدرت نہیں کہ اگر وہ مجھے اس جھوٹ کی پاداش میں پکڑلے تو وہ کہہ سن کر چھڑا سکے میرے اور تمہارے درمیان اللہ کی گواہی اس بات کا کافی ثبوت ہے کہ میں اپنے دعویٰ میں جھوٹا نہیں ہوں کیونکہ اگر میں اس کی جانب سے نہ ہوتا اور یہ ادعائے نبوت محض افترا ہوتا تو پھر اللہ کی رحمتیں اور بخششیں جن کو تم بھی محسوس کرتے ہومیرے شامل حال نہ ہوتیں اور اس عزیمت واستقلال کے ساتھ میں اس کے پیغام کو تم تک نہ پہنچا سکتا ۔ اور پھر غول در غول لوگ اس دین میں داخل نہ ہوتے ۔ اس کی تائیدیں اس بات کی صریح ثبوت ہیں کہ وہ میرے ساتھ ہے اور میں اس کے حضور میں جھوٹا نہیں ہوں یہی معنی ہیں ﴿وَهُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ کے ۔ حل لغات : تُفِيضُونَ فِيهِ۔ یعنی قرآن کے باب میں جس طرح تم روانی سے باتیں کرتے ہو ۔