سورة الدخان - آیت 33

وَآتَيْنَاهُم مِّنَ الْآيَاتِ مَا فِيهِ بَلَاءٌ مُّبِينٌ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور ہم نے انھیں وہ نشانیاں دیں جن میں واضح آزمائش تھی۔

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

ایمان وکفر کی آویزش ف 1: ان آیات میں حضرت موسیٰ اور بنی اسرائیل کا قصہ ہے ۔ کہ کیونکر ان کو فرعون ایسے ظالم ومستبد بادشاہ کے چنگل سے رہائی نصیب ہوئی ۔ اس کو پانی قوت پر ناز تھا ۔ اپنے عساکر اور فوجوں پر غرہ تھا ۔ اپنے قلعوں اور اونچے اونچے مجلوں پر فخر تھا ۔ یہ بات اس کے ذہن سے بہت دور تھی کہ غریب اور مفلس ومظلوم قوم کبھی اتنے عالی قدر بادشاہ کا مقابلہ کر پائے گی ۔ اور اس کی مخلصی کے سامان غیب سے مہیا ہوسکیں گے ۔ مگر اللہ کی طرف سے مقدر ہوچکا تھا ۔ کہ ایمان وکفر کا تصادم ہو ۔ افلاس اور تمول میں ٹھن جائے ۔ موسیٰ اور باجبروت وسطوت شخصیت میں معرکہ آرائی ہو ۔ اور فتح ہو ایمان کی ۔ کامیابی کا تاج رکھا جائے ۔ غریبوں اور مفلسوں کے سر پر اور کامرانی بخشی جائے ضعیف اور ناتوان موسیٰ کو ۔ چنانچہ ایک رات جب فرعون اور اس کے سپاہی آسودگی اور تنعم کی نیند میں سرمست تھے ۔ اللہ کی طرف سے حکم ملا ۔ کہ اب ارضا مصر سے چل نکلو ، تمہارا تعاقب کیا جائیگا ۔ اور بالآخر دشمن تمہارے سامنے دریا میں غرق ہوجائیگا ۔ چنانچہ بنی اسرائیل دریا کے پار ہوگئے ۔ اور دریا نے پایاب ہوکر ان کے لئے راستہ بنادیا *۔ لیکن جب فرعون کے لاؤ لشکر نے اس میں سے گزرنا چاہا ۔ تو دریا جوش میں آکر زوروں سے بہنے لگا ۔ عقل وخرد کے لئے یہ بات اب تک حیران کن ہے ۔ کہ دریا میں اس طرح کا انقلاب ہوگیا ۔ کہ وہ تھم گیا اور اس میں بنی اسرائیل کے استقبال اور خیر مقدم کے لئے جگہ بن گئی ۔ مگر ایمان اس کو یوں حل کرلیتا ہے ۔ کہ وہ خدا جس نے پتھروں میں سے پانی کے چشمے جاری کئے ہیں ۔ جس نے زمین میں سے سوتے پیدا کئے ۔ جس نے پانی کو یہ روانی بخشی ۔ اس میں یہ استطاعت بھی ہے ۔ کہ وہ دریا کو روک دے ۔ پانی کی روانی اس سے چھین لے ۔ اور اپنے بندوں کے لئے پانی میں آنے جانے کے لئے دروازے پیدا کردے ۔ وہ ان چیزوں کو نہایت آسانی کے ساتھ کرسکتا ہے ۔ وہ خود ہمہ قانون اور ضابطہ ہے ۔ وہ چاہے تو لوہے کی نہریں رواں کردے ۔ اور پانی میں پتھر ایسی صلاحیت پیدا کردے ۔ اور چاہے تو آسمان کی بلندیوں کو زمین کی پستیوں سے بدل دے ۔ اور فرش زمین کو عرش تک بلند کردے *۔ فرمایا ۔ یہ فرعون جب غرق ہوا ہے ۔ تو اس وقت نہ تو آسمان نے غم کا اظہار کیا ۔ اور نہ زمین روئی اور نہ ان کو مہلت دی گئی ۔ اس طرح ہم نے ان لوگوں کو کامل آزادی اور استقلال کی نعمت سے بہرہ مند کیا *۔ حال لغات :۔ فکھین ۔ لطف اندواز ہونے والے *