سورة آل عمران - آیت 148

فَآتَاهُمُ اللَّهُ ثَوَابَ الدُّنْيَا وَحُسْنَ ثَوَابِ الْآخِرَةِ ۗ وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

تو اللہ نے انھیں دنیا کا بدلہ عطا فرمایا اور آخرت کا اچھا بدلہ بھی اور اللہ نیکی کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

اللہ والوں کا جہاد : (ف ٢) جس طرح ایک مادہ پرست انسان کے نصب العین میں زمین وآسمان کا فرق اسی طرح ان کے طریق کار ہیں اور عام لوگوں کی روش میں عظیم امتیاز پایا جاتا ہے ، مادیت پرست لوگ مادی خواہشات کے حصول کے لئے لڑتے ہیں اور اللہ والے بلند نصب العین کے ماتحت میدان جہاد میں کودتے ہیں ۔ دنیا داروں کے سامنے خدا کی بادشاہت پھیلانے کا مقصد ہوتا ہے ، ظالم اپنے نفس امارہ کے لئے لڑتے ہیں اور خدائی مجاہد اعلاء کلمۃ اللہ کے لئے ، پھر جس طرح ان کے مقاصد میں اختلاف ہے ، اسی طرح ان کے طریق جنگ میں بھی اختلاف ہے ۔ دنیا کے قیاصر واکاسرہ مادی قوتوں کو جمع کرتے ہیں اور اقلیم ایمان عقیدت کے شہنشاہ بصیرت ونیاز مندی کے متاع عزیز کو ۔ ان آیات میں اسی نقشہ کو پیش کیا ہے کہ انبیاء کا ساتھ دینے والے سپاہی جنگ ولے کے نغموں سے مست ہو کر نہیں لڑتے ، شراب و لے سے مخمور ہو کر دشمنوں کا مقابلہ نہیں کرتے ، بلکہ ایمان ومغفرت کا افشردہ پیتے ہوئے جنگ میں نبرد آزما ہوتے ہیں ، خدا سے ڈرتے ہوئے اپنی لغزشوں سے معافی چاہتے ہوئے (آیت) ” ثبت اقدامنا “۔ کے نعرے لگاتے ہوئے جنگ کی آگ میں کودتے ہیں نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ خدا دنیا کا ثواب اور عقبی وآخرت کی فیروز مندیاں ان پر سے نچھاور کردیتا ہے ، اس لئے کہ وہ جنگ میں بھی جہاں عام سپاہی اخلاق پش پشت ڈال دیتے ہیں ، احسان ومروت کا پیکر ہوتے ہیں ، ان کی دشمنی سوائے باطل اور باطل پرست کے اور کسی شے سے نہیں ہوتی ، وہ اللہ کے لئے لڑتے ہیں اور اللہ کے لئے لڑتے ہیں اور اللہ کے لئے جیتے ہیں ، ان کی کوئی حرکت اور ان کا کوئی اقدام ان کے اپنے لئے نہیں ہوتا ، وہ پوری بےغرضی اور بےلوثی کے ساتھ رہتے ہیں ۔ (آیت) ” واللہ یحب المحسنین “۔