سورة الشورى - آیت 44

وَمَن يُضْلِلِ اللَّهُ فَمَا لَهُ مِن وَلِيٍّ مِّن بَعْدِهِ ۗ وَتَرَى الظَّالِمِينَ لَمَّا رَأَوُا الْعَذَابَ يَقُولُونَ هَلْ إِلَىٰ مَرَدٍّ مِّن سَبِيلٍ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور جسے اللہ گمراہ کر دے، پھر اس کے بعد اس کا کوئی مددگار نہیں اور تو ظالموں کو دیکھے گا کہ جب وہ عذاب کو دیکھیں گے تو کہیں گے کیا واپس جانے کی طرف کوئی راستہ ہے۔

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

آیت 44۔ 46 حل لغات :۔ ظرف خفی ۔ دزویدہ نگاہ سے ۔ سست نگاہ سے * مقیم ۔ دائمی ۔ اولیاء ۔ ولی کی جمع ہے ۔ بمعنے دوست اور مدد گار ۔ چارہ ساز * مرد ۔ ہٹنا ۔ لوٹنا *۔ یعنی وہ لوگ جن سے بداعمالیوں کی وجہ سے اللہ توفیق ہدایت چھین لے ۔ وہ چارہ سازی سے محروم رہینگے *۔ گھاٹے میں کون ہے وہ لوگ جنہوں نے دنیا میں اپنی ذمہ داریوں کو محسوس نہیں کیا ۔ اور کفروشرک اختیار کرکے اپنے قلب ووجدان پر ظلم کیا ہے ۔ ان سے عالم عقبے میں بہت ہی ذلیل کن طرز عمل روارکھا جائیگا ان کی روح افتخار کو کچل ڈالا جائے گا ۔ اور اس تمام غروروکبر کو جس کی وجہ سے یہ قرآن حکیم تسلیم نہ کرسکے پاؤں تلے مسل دیا جائے گا ۔ محسوس کریں گے ۔ کہ ذلت و نکبت نے چاروں طرف سے گھیر رکھا ہے ۔ دوزخ روبرو لائے جائیں گے ۔ اور اللہ تعالیٰ سخت غصے اور غضب کا اظہار کریں ۔ اس وقت ان کی نظریں اوپر کو نہ اٹھیں گی ۔ مسلمانوں کو یہ دیکھیں گے مگر وہ زویدہ نگاہوں سے ۔ وہ بھی تاڑ جائیں گے اور ان سے کہیں گے ۔ کہو آج کون خسارے میں ہے ۔ دنیا میں تو تم لوگ کہتے تھے ۔ کہ مذہب کو قبول کرکے اپنی آزادی کو کھودیتا ہے ۔ لذتوں اور مسرتوں سے محروم ہوتا اور گھاٹے کو قبول کرتا ہے ۔ آج بتاؤ کون ہر طرح کی نعمتوں سے بہرہ مند ہے ۔ کون باغوں اور نہروں میں رہتا ہے ۔ کس کے عفیف اور جمیل کاریں تابع ہیں ۔ کون رب رحیم کے الطاف کو ناگون سے مشرف ہے ۔ کس کے لئے جامہائے شراب مہیا ہیں ۔ کس کے لئے روح میں بالیدگی اور ارتقاء ہے ۔ کس کے لئے روحانی تروتازگی اور نزہت ہے ۔ اور کون ہے جو ہر قسم کی مسرتوں سے محروم ہے ۔ دکھ اور تکلیف میں ہے ۔ دوزخ کے عذابوں میں مبتلا ہے ۔ اللہ کی رحمتوں سے دور ہے ۔ یاد رکھو ، ظالم اور برے لوگ اللہ کے مقام رضا کو کبھی حاصل نہیں کرسکتے ۔ اور ان میں یہ اہلیت ہرگز پیدا نہیں ہوسکتی ۔ کہ یہ جنات نعیم کی اسائشوں کو آزما سکیں ۔ اصل اور حقیقی زندگی یہ ہے ۔ کہ اللہ کے ہاں مقبولیت ہو وہ انعامات کے لئے پسند کرلے ۔ اور وہ روضات خلد میں جگہ دے ۔ یہ زندگی نہیں ہے ۔ کہ دنیا میں متاع عارضی کی وجہ سے اتنے سرمست اور مدہوش ہوجاؤ۔ کہ اللہ سے بالکل غافل ہوجاؤ اور اس کے حکموں کو کوئی وقعت نہ دو ۔ سب سے بڑی کوفت ان کے لئے یہ ہوگی ۔ کہ جن لوگوں کو دنیا میں اپنا چارہ ساز سمجھتے تھے جن سے عقیدت تھی ۔ اور جن کو یہ اپنا نجات دہندہ قرار دیتے تھے ۔ یہ ان سے بالکل بیزاری کا اظہار کریں گے ۔ اور قطعاً ان کو سزا اور عذاب سے نہیں بچا سکیں گے *۔