سورة الشورى - آیت 37

وَالَّذِينَ يَجْتَنِبُونَ كَبَائِرَ الْإِثْمِ وَالْفَوَاحِشَ وَإِذَا مَا غَضِبُوا هُمْ يَغْفِرُونَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور وہ لوگ جو بڑے گناہوں سے اور بے حیائیوں سے بچتے ہیں اور جب بھی غصے ہوتے ہیں وہ معاف کردیتے ہیں۔

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

آیت 37 تا 43: حل لغات :۔ الفواحش ۔ جمع معشہ برائیاں * استجابوا ۔ یعنی انہوں نے اللہ کی رضا کو بہرآئینہ مقدم جانا اور ہر حکم کو رضاکارانہ تسلیم کرلینے کا عہد *۔ حل لغات :۔ انتصر ۔ بدلہ اور انتقام لیا ۔ انتصار سے ہے *۔ اہل عقبے ف 1: ان آیتوں میں ان لوگوں کی صفات کا تذکرہ ہے ۔ جن کیلئے عاقبت کی زندگی ہے ۔ اور جو آخرت میں روحانی سعادتوں سے بہرہ مند ہونگے ۔ فرمایا : کہ یہ وہ لوگ ہیں ۔ جو اللہ پر ایمان رکھتے ہیں ۔ اور مصائب وشدائد میں اس پر بھروسہ رکھتے ہیں ۔ اور سراسر پاکباز ہیں ۔ وہ کوشش کرتے ہیں ۔ کہ ان کا دامن کبیرہ گناہوں سے آلودہ نہ ہو ۔ ان میں یہ صلاحیت اور قوت برداشت ہوتی ہے ۔ کہ جب جذبات میں اشتعال پیدا ہو ۔ غصہ اور غضب رونما ہو ۔ تو اس وقت وہ اپنے خطم اور مخالف کو معاف کردیں ۔ جو لوگ اللہ کے حکم کے تابع ہیں ۔ ہر ابتلاء کو جو اس کی طرف سے ہو ۔ خندہ پیشانی زبردشت کریں ۔ اور نماز کو اس کی تمام شروط ظاہری وباطنی کے ساتھ ادا کریں ۔ پابندی وقت کیساتھ پڑھیں ۔ معنے اور مفہوم کو سمجھنے کی کوشش کریں ۔ اور مقام احسان کو حاصل کریں ۔ جہاں بندہ اپنے مولا کے قرب کو حاصل کرلیتا ہے ۔ اور اس طرح عبادت میں مصروف ہوتا ہے ۔ کہ گویا کہ اپنی بصیرت کی آنکھوں سے اس کو دیکھ رہا ہے ۔ جو زکوٰۃ دیں اور اپنے مال ودولت کو اس کی راہ میں خرچ کریں ۔ اور وہ لوگ جو شریر دشمن کے مقابلہ میں عاجز اور کمزور نہ ہوں ۔ جو بلا دلیلغ ان سے بزور بدلہ لے سکیں ۔ اور ان کو ان کے مفسدانہ طرز عمل سے بار رکھ سکیں ۔ کیونکہ برائی اور شرارت کی جزا بھی اسی قدر ہونی چاہیے ۔ ہاں جو شخص چاہے کہ باوجود قابو پانے کے اور غصہ وغضب کے اپنے مخالف کو معاف کردے ۔ تو یہ بھی ہوسکتا ہے اور یہ بہترین پوزیشن ہے ۔ اس کا اجر اللہ کے ذمہ ہے ۔ اور عزائم امور میں سے ہے ۔ جس کا مرتبہ عام لوگوں سے بلند اور برتر ہے *۔ یہ واضح رہے کہ اسلام نے جو دین فطرت ہے ایک طرف تو علو کی فضیلت کو بیان کیا ہے ۔ اور کہا ہے کہ یہ عادت عزیمت کی عادت ہے ۔ اور دوسری طرف سزا اور بدلہ کی بھی تعریف کی ہے اس کی وجہ ہے ۔ کہ اصل میں نہ عفو بہتر ہے ۔ اور نہ سزا وانتقام دیکھنا یہ ہے ۔ کہ مقام اور حالات کے مطابق ان دونوں حربوں میں سے کون حربہ عمل سے متاثر ہوتا ہے ۔ اور مقصد حاصل ہوجانا ہے اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ شریر کا غصہ نرمی سے اور بڑھ سکتا ہے ۔ اور وہ اس کو عاجزی اور ضعف پر محمول کرتا ہے ۔ لہٰذا اسلام کہتا ہے کہ تم ان دونوں چیزوں کو اپنے سامنے رکھو اور ہر موزوں کو سمجھوکہ وہ تمہیں کسی ایک چیز کے لئے مجبور نہیں کیا جاتا *۔