وَكَذَٰلِكَ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ قُرْآنًا عَرَبِيًّا لِّتُنذِرَ أُمَّ الْقُرَىٰ وَمَنْ حَوْلَهَا وَتُنذِرَ يَوْمَ الْجَمْعِ لَا رَيْبَ فِيهِ ۚ فَرِيقٌ فِي الْجَنَّةِ وَفَرِيقٌ فِي السَّعِيرِ
اور اسی طرح ہم نے تیری طرف عربی قرآن وحی کیا، تاکہ تو بستیوں کے مرکز (مکہ) کو ڈرائے اور ان لوگوں کو بھی جو اس کے ارد گرد ہیں اور تو اکٹھا کرنے کے دن سے ڈرائے جس میں کوئی شک نہیں، ایک گروہ جنت میں ہوگا اور ایک گروہ بھڑکتی آگ میں۔
حل لغات :۔ ام القری ۔ مکہ یعنی آس پاس کے دیہات کا مرکز اس طرف کی بستیوں میں سب سے پہلے آیا ہوا ہے ۔ یوم الجمع ۔ قیامت کا دن جبکہ لوگ ان کے حضور جمع ہونگے *۔ یعنی قرآن کتب سابقہ کی طرح صداقت اور حقانیت کا حال ہے ۔ اس کو عربی میں اس لئے نازل کیا گیا ہے ۔ تاکہ مکہ والوں کے لئے اتمام حجت ہوجائے اور وہ یہ عذر نہ کرسکیں ۔ کہ ہم قرآن کو سمجھ نہیں پاتے ۔ اسی طرح ان کے آس پاس کے رہنے والے لوگوں یہ اعتراض نہ کریں ۔ کہ عجمیت ہماری راہ میں حائل ہوئی ۔ اگر ہماری بولی میں قرآن نازل ہوتا تو ہم ضرور تسلیم کرتے اس کے یہ معنی نہیں ہیں ۔ کہ قرآن حکیم کے فیوض صرف اہل عرب کے لئے ہیں بلکہ غرض یہ ہے کہ کم از کم ایک قوم کو اللہ تعالیٰ ہدایت کے لئے بطور قیادت کے لئے منتخب کرلینا چاہتا ہے ۔ جن کی زندگی دوسروں کے لئے اسوہ اور نمونہ ہو اور ظاہر ہے کہ یہ پہلی جماعت تو ایسی ہونی چاہیے ۔ کہ وہ مطالب تسان کو پورے معنوں میں سمجھ سکے ۔ اور ان کے لئے کوئی عذر ممنوع نہ ہو تاکہ ان کی وساطت سے ساری دنیا میں جو اسلام پہنچے وہ یقینی عملی اور قطعی ہو *۔