أُولَٰئِكَ جَزَاؤُهُم مَّغْفِرَةٌ مِّن رَّبِّهِمْ وَجَنَّاتٌ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا ۚ وَنِعْمَ أَجْرُ الْعَامِلِينَ
یہ لوگ ہیں جن کی جزا ان کے رب کی طرف سے بڑی بخشش اور ایسے باغات ہیں جن کے نیچے سے نہریں بہتی ہیں، ہمیشہ ان میں رہنے والے ہیں اور (یہ) عمل کرنے والوں کا اچھا اجر ہے۔
ستہ ضروریہ : (ف ٢) ان آیات میں چھ ان صفات کی توضیح کی گئی ہے جن سے مغفرت کا حصول ہوتا ہے ، (١) عسرویسر حالت میں خدا کی راہ میں خرچ کرنا ۔ (٢) مقدر وقوت کے باوجود غصہ کو ضبط کرلینا ، مبروجو بڑے نجومی ہیں ‘ کہتے ہیں کظلم کا لفظ اس وقت بولا جاتا جب مشکیزہ بھر جائے اور بہتے ہوئے پانی کو بند کیا جائے چنانچہ کظم السقاء کے معنی ہوتے ہیں ، کتم علی امتلائہ منہ “ یعنی خوبی جب ہے جب غصہ سے آنکھوں میں خون اتر آئے ، بدن میں کپکپی اور تھرتھری پیدا ہوجائے اور پھر خدا کا ڈر اور حسن سلوک کا جذبہ تمہیں انتقام سے روک دے ، یہ وہ جذبہ ہے جو انسان کو حقیقی معنوں میں بہادر بنا دیتا ہے ، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ پہلوان وہ نہیں جو دشمن کو گرا دے ، بلکہ وہ ہے جو غصہ کو پچھاڑ دے ، (٣) معاف کردینے کا درجہ غصہ پی جانے سے زیادہ بلند ہے ، یعنی انتقام نہ لینے کے بعد دل سے بھی بغض وعناد کے خیالات کو دور کر دے اور پوری پاکیزگی کے ساتھ دشمن سے ملے (٤) احسان یعنی حسن سلوک سے کام لے ، فرمایا ، خدا کو ایسے ہی بندے پسند ہیں ، (آیت) ” واللہ یحب المحسنین “۔ (٥) احساس زیاں یعنی برائی کے بعد فورا پشیمانی ۔ (٦) عدم اسرار وقبول واعتراف کا جذبہ ۔ ظاہر ہے یہ وہ ستہ ضروریہ ہے جس پر اسلامی اخلاق کی بنیاد ہے اور جو مقام جنت کے حصول کے لئے از بس ضروری ہے کیا اس کے بعد بھی کوئی کہہ سکتا ہے کہ اسلام آئیڈیل اخلاق پیش نہیں کرتا ۔