وَلَوْ جَعَلْنَاهُ قُرْآنًا أَعْجَمِيًّا لَّقَالُوا لَوْلَا فُصِّلَتْ آيَاتُهُ ۖ أَأَعْجَمِيٌّ وَعَرَبِيٌّ ۗ قُلْ هُوَ لِلَّذِينَ آمَنُوا هُدًى وَشِفَاءٌ ۖ وَالَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ فِي آذَانِهِمْ وَقْرٌ وَهُوَ عَلَيْهِمْ عَمًى ۚ أُولَٰئِكَ يُنَادَوْنَ مِن مَّكَانٍ بَعِيدٍ
اور اگر ہم اسے عجمی قرآن بنا دیتے تو یقیناً وہ کہتے اس کی آیات کھول کر کیوں نہ بیان کی گئیں، کیا عجمی زبان اور عربی (رسول)؟ کہہ دے یہ ان لوگوں کے لیے جو ایمان لائے ہدایت اور شفا ہے اور وہ لوگ جو ایمان نہیں لاتے ان کے کانوں میں بوجھ ہے اور یہ ان کے حق میں اندھا ہونے کا باعث ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنھیں بہت دور جگہ سے آواز دی جاتی ہے۔
(ف 1) اللہ تعالیٰ کی اپنی کوئی خاص زبان نہیں اس نے تمام زبانوں کو پیدا کیا ہے ۔ اس لئے اس کا تعلق ربوبیت ہر زبان میں یکساں ہے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا تھا کہ پھر جب کہ اس کا تعلق تمام زبانوں کے ساتھ برابر کا ہے ۔ تو عربی کو کیوں ترجیح دی گئی ۔ اور کیوں قرآن کو جو دنیا کی آخری کتاب ہے اس زبان میں نازل کیا گیا ؟ جواب یہ ہے کہ یہی زبان ایسی ہے جس میں مذہبی اور دینی مطالب کے لئے ایضاح وتفصیل کی قابلیت اور استعداد دوسری زبانوں سے زیادہ ہے ۔ اور اس لئے بھی عربی زبان کا استعمال ناگریز تھا کہ جن لوگوں کو اولاً رشدوہدایت کے لئے منتخب کرنا ضروری تھا وہ عرب تھے ۔ قرآن کا عامل اور پیش کرنے والا بھی عربی تھا ۔ لہٰذا یہی انسب تھا کہ باوجود غیر جنبہ واری کے اللہ تعالیٰ قرآن کی عربی کے خوبصورت انداز بیان ہی میں نازل فرماتا ۔ حل لغات : وَقْرٌ۔ بوجھ ثقل ، گرانی گرش۔ بِظَلَّامٍ۔ حق تلفی کرنے والا ۔ ظالم ۔