سورة فصلت - آیت 42

لَّا يَأْتِيهِ الْبَاطِلُ مِن بَيْنِ يَدَيْهِ وَلَا مِنْ خَلْفِهِ ۖ تَنزِيلٌ مِّنْ حَكِيمٍ حَمِيدٍ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اس کے پاس باطل نہ اس کے آگے سے آتا ہے اور نہ اس کے پیچھے سے، ایک کمال حکمت والے، تمام خوبیوں والے کی طرف سے اتاری ہوئی ہے۔

تفسیرسراج البیان - محممد حنیف ندوی

قرآن عزیز (ف 1) مکے والوں کی یہ انتہائی بدبختی اور محرومی تھی کہ وہ اس قرآن عزیز سے استفادہ نہ کرسکے ۔ ورنہ نفس کتاب کی خوبیاں اور درجہ نمایاں ہیں کہ ان میں قطعاً شك وشبہ کی گنجائش نہیں ۔ عربی میں عزیز کے دو معنی ہیں ۔ ایک تو یہ کہ یہ اپنے انداز بیان کے لحاظ سے عدیم النظیر ہے ۔ دنیا کی کوئی کتاب فصاحت اور بلاغت میں اس کا مقابلہ نہیں کرسکتی ۔ اسے دلائل کا وہ استحکام حاصل ہے جس کی وجہ سے تمام مذہبی اور دینی صحیفوں پر غالب اور مفتخر ہے ۔ اس میں کوئی بات ایسی نہیں جس کے لئے دلیل نہ ہو اور عقل ودانش کے قرین نہ ہو ۔ دوسرا وصف یہ ہے کہ اس میں تحریف وتبدیلی کسی عنوان بھی راہ نہیں پاسکتی اور کسی وقت بھی یہ نہیں ہوسکتا کہ اس میں باطل کی آمیزش ہوجائے ۔ چنانچہ یہ حیرت انگیز بات ہے کہ چودہ سو سال ہوگئے ہیں مسلمانوں پر زوال بھی آیا ۔ فتنوں اور آزمائش کا طوفان بھی امڈا ۔ مجوسیت اور عجمیت نے اسلامی لٹریچر میں بڑی حد تک دخل اندازی بھی کی ۔ مگر قرآن جوں کا توں ہے اور آج بھی اس درجہ مستنداور معتبر ہے جس درجہ قرآن اولیٰ میں تھا ۔ یہ ہوسکتا ہے کہ لوگوں کو اس کی تعلیمات میں کلام ہو اور زندگی کے پیش کردہ مسائل میں اس کے ساتھ اتفاق نہ کرسکیں ۔ مگر بڑے سے بڑا دشمن بھی بشرطیکہ وہ اسلام کے متعلق کچھ بھی معلومات رکھتا ہو ۔ اس اعتراف پر مجبور ہے کہ یہ قرآن آج اسی طرح مسلمانوں میں موجود ہے جس طرح کہ محمد (ﷺ) نے ان کو دیا تھا اور اس میں ایک شوشہ اور کسی اعراب کی بھی تبدیلی نہیں ہوئی ہے ۔ حالانکہ جتنے مذہبی صحیفے اس وقت موجود ہیں ان میں سے کسی کے متعلق قطعی طور پر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ اپنی اصلی حالت میں موجود ہے ۔ بائبل کی تعریف تو تقریباً اہل علم کے حلقوں میں مسلم تھی ۔ اب ویدوں کے جاننے والے اور ریسرچ کرنے والے بھی یہ کہہ رہے ہیں کہ متعدد مقامات میں بعض ملاحدہ نے ان میں حسب منشاء تبدیلی پیدا کردی ہے ۔ ظاہر ہے کہ اس صورت حالات میں اعتماد قطعاً اٹھ جاتا ہے اور پھر ایسی کوئی کتاب لائق تاسی نہیں رہتی ۔ حل لغات : مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَلَا مِنْ خَلْفِهِ۔ بطور تمثیل کے ہے ۔ یعنی قرآن بمنزلۃ ایک ایسے محفوظ اور مستحکم قلعہ ہے جس میں افواج یا فتنہ کے لئے کوئی راستہ ہی موجود نہیں ۔ نہ آگے کی طرف اور نہ پیچھے کی جانب سے۔ أَعْجَمِيٌّ۔ غیر عربی ۔