وَمَا كُنتُمْ تَسْتَتِرُونَ أَن يَشْهَدَ عَلَيْكُمْ سَمْعُكُمْ وَلَا أَبْصَارُكُمْ وَلَا جُلُودُكُمْ وَلَٰكِن ظَنَنتُمْ أَنَّ اللَّهَ لَا يَعْلَمُ كَثِيرًا مِّمَّا تَعْمَلُونَ
اور تم اس سے پردہ نہیں کرتے تھے کہ تمھارے خلاف تمھارے کان گواہی دیں گے اور نہ تمھاری آنکھیں اور نہ تمھارے چمڑے اور لیکن تم نے گمان کیا کہ بے شک اللہ بہت سے کام، جو تم کرتے ہو، نہیں جانتا۔
اعضاء بولیں گے (ف 1) یہ لوگ اس لحاظ سے اللہ کے دشمن ہیں کہ اس کے پیش کردہ نصب العین سے عداوت رکھتے ہیں ۔ اس لئے نہیں کہ ان کی دشمنی اس کی جلالت قدر کو کوئی نقصان پہنچا سکتی ہے ۔ یا ان کو اللہ کے مدمقابل ہونے کی حیثیت حاصل ہے ۔ یہ دشمن دین جب کشاں کشاں اس کے حضور میں لائے جائیں گے ۔ تو خلاف توقع ان کے کان ان کی آنکھیں اور ان کی کھالیں ان کے خلاف گواہی دیں گی ۔ اور بولیں گی ۔ یہ لوگ حیرت وندامت سے کہیں گے کہ تم میں گویائی کی صلاحیت کیونکر پیدا ہوگئی ؟ یہ جواب میں کہیں گی کہ جس اللہ نے ہر بولنے والی چیز کو نطق کی نعمت سے نوازا ہے ۔ اسی نے ہمیں بھی یہ صلاحیت بخش دی ہے ۔ اسی نے تمہیں پیدا کیا تھا ۔ اور آج اسی کے حضور میں لائے گئے ہو ۔ یہ جواب جو اعضاء وجوارح کی طرف سے دیا گیا ہے کس درجہ معقول ہے ۔ کتنا درست ہے ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ سارے اعتراضات کو ایک جملہ میں رفع کردیا ہے ۔ کیونکہ جب ہم یہ تسلیم کرتے ہیں کہ منہ میں گوشت کا ایک ٹکڑا بول سکتا ہے تو پھر کان کیوں گویا نہیں ہوسکتے ۔ اور آنکھیں گفتگو نہیں کرسکتیں ۔ جہاں تک اللہ کی حکمتوں اور قدرتوں کا تعلق ہے ان کو مان لینے کے بعد اس نوع کےشکوک کا قطعی ازالہ ہوجاتا ہے ۔ وہ چاہے تو آہن اور فولاد کے جگر میں احساس کی استعداد رکھ دے ۔ پتھروں کو شنوا کردے ۔ اور پہاڑوں کو رواں دواں بنائے وہ سب کچھ کرسکتا ہے ۔ اور اس کی قدرتوں کا دائرہ اتنا وسیع اور لامحدود ہے کہ ہم اس کے احاطہ سے عاجز ہیں ۔ ہمارا یہ منصب نہیں کہ ہم کہیں یہ مشکل ہے اور یہ محال ہے بلکہ ہمارا فرض یہ ہے کہ اس کے سامنے سر نیاز جھکادیں ۔ اور کہہ دیں کہ اے اللہ تو ان بےشمار چیزوں پرقدرت رکھتا ہے جن کے متعلق ہمیں کچھ بھی معلوم نہیں ۔