وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلًا مِّن قَبْلِكَ مِنْهُم مَّن قَصَصْنَا عَلَيْكَ وَمِنْهُم مَّن لَّمْ نَقْصُصْ عَلَيْكَ ۗ وَمَا كَانَ لِرَسُولٍ أَن يَأْتِيَ بِآيَةٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ ۚ فَإِذَا جَاءَ أَمْرُ اللَّهِ قُضِيَ بِالْحَقِّ وَخَسِرَ هُنَالِكَ الْمُبْطِلُونَ
اور بلاشبہ یقیناً ہم نے تجھ سے پہلے کئی رسول بھیجے، ان میں سے کچھ وہ ہیں جن کا حال ہم نے تجھے سنایا اور ان میں سے کچھ وہ ہیں جن کا حال ہم نے تجھے نہیں سنایا۔ اور کسی رسول کا اختیار نہ تھا کہ اللہ کے اذن کے بغیر کوئی نشانی لے آئے، پھر جب اللہ کا حکم آگیا تو حق کے ساتھ فیصلہ کردیا گیا اور اس موقع پر اہل باطل خسارے میں رہے۔
بعض انبیاء کا ذکر قرآن میں نہیں ہے ف 1: چونکہ قرآن عربوں میں نازل ہوا ۔ اور عربی زبان میں نازل ہوا اس لئے ضروری تھا ۔ کہ اس میں انہیں انبیاء کا تذکرہ ہو جن سے ان کے گوش آشنا ہوں ۔ اور جن کے متعلق انہیں کچھ بےوقوف ہو اس لئے جمیعا قرآن حکیم نے اس التزام کو قائم رکھا ہے ۔ گو کہ اس نے اس نظریہ کو بڑے زور کے ساتھ اشاعت کی ۔ کہ مذہب کس مرزویوم کے ساتھ مختص نہیں اور کائنات میں ہر جگہ اللہ کے پیغمبر آئے ۔ پھر بھی ان سے شامی انبیاء کا زیادہ تر ذکر کیا ہے ۔ کہ یہودی اور عیسائی انہیں پاکبازوں کے حالات سے واقف تھے ۔ اور ان کے لئے انہیں حضرات کا اسوہ پاک قابل تقلید ومتبع قرار دیا جاسکتا تھا *۔ اس آیت میں اس غلط فہمی کو رفع فرمایا ہے ۔ کہ مبادا کوئی شخص اس طرح یہ نہ سمجھ لے کہ جن انبیاء کو قرآن نے بیان ہے بس وہی عہدہ نبوت پر فائز تھے ۔ بلکہ انبیاء کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے ۔ ہر قوم میں حالات اور مقامات کے مطابق اللہ نے اپنے رسولوں کو بھیجا ہے ۔ اور انہوں نے ہر زبان میں اللہ کے پیغام کو پہنچایا ہے ۔ ہاں مصالح کے موافق ہم نے بعض کا ذکر کیا ہے اور بعض کو چھوڑ دیا ہے *۔