وَيَا قَوْمِ مَا لِي أَدْعُوكُمْ إِلَى النَّجَاةِ وَتَدْعُونَنِي إِلَى النَّارِ
اور اے میری قوم ! مجھے کیا ہے کہ میں تمھیں نجات کی طرف بلاتا ہوں اور تم مجھے آگ کی طرف بلاتے ہو۔
مرد مومن کی بقیہ تقریر ف 2: اس مرد مومن نے اپنی تقریر کو جاری رکھتے ہوئے کہا ۔ کہ میں تو تمہیں نجات اور مخلصی کی دعوت دیتا ہوں ۔ اور تم مجھے جہنم کی طرف بلاتے ہو ۔ تم یہ چاہتے ہو کہ میں اللہ کا انکار کردوں اور اس کے ساتھ ایسی چیزوں کو شریک ٹھہراؤ ں ۔ جن کے متعلق میں نہیں جانتا کہ وہ کیونکر خدا ہوسکتی ہیں ۔ میں تمہیں ایسے رب عزت اور خطا بخش خدا کی جانب بلاتا ہوں ۔ جو ساری دنیا کا مالک ہے اور تم جن معبودان باطل کے لئے میری عقیدت مندی کو حاصل کرنا چاہتے ہو ۔ وہ دنیا میں کام آسکتے ہیں ۔ نہ آخرت میں ۔ یاد رکھو ہم سب کو بالآخر اسی خدا کے جانب لوٹ کر جانا ہے ۔ اور وہاں وہ لوگ جو حد عبودیت سے تجاوز کررہے ہیں دوزخ میں جائیں گے ۔ تم لوگوں کو عنقریب معلوم ہوگا کہ میں جو کچھ کہتا ہوں ۔ وہ حق وصداقت ہے ۔ اور میں اپنے معاملہ کو اللہ کے سپرد کرتا ہوں ۔ کیونکہ میرا ایمان یہ ہے کہ خدا اپنے بندوں کا ہمیشہ خیال رکھتا ہے ۔ اس مخلصانہ وعظ کا اثر الٹا ہوا ۔ قوم مخالفت پر آمادہ ہوگئی ۔ اور یہ سوچنے لگی ۔ کہ کیونکر حضرت موسیٰ کے تبلیغی اثرات لوح قلب سے مٹایا جاسکتا ہے ۔ تشدد کی تیاریاں ہونے لگیں اور سزا کی دھمکیاں دی جانے لگیں ۔ کہ اتنے میں حضرت موسیٰ کو حکم ہوا کہ آپ ارض مصر کو چھوڑ دیں ۔ اور بنی اسرائیل کو اپنے ساتھ لے جائیں ۔ چنانچہ حضرت موسیٰ نے اس پر عمل کیا اور راتوں رات سرزمین مصر کو خالی کردیا ۔ فرعون اور اس کے ساتھیوں نے تعاقب کیا اور دریا میں ڈوبا دیئے گئے *۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ نے اپنے بندوں کی حمایت کی ۔ اور حیرت انگیز طریق سے اتنے بڑے بادشاہ کے چنگل سے ان لوگوں کورہائی بخشی ۔ اور عملاً یہ بتادیا ۔ کہ اللہ کی ضمانتیں بجائے خودایک طاقت اور قوت ہیں اور جس کے ساتھ اللہ کی نصرت اور اعانت ہو ۔ وہ کبھی اپنے مقاصد میں ناکام نہیں رہتا ۔ اور نیز اس چیز کا اظہار فرمایا ہے ۔ کہ غررور مادی کے لئے ہمیشہ شکست اور عزیمت ہے اور یہ مقدرات سے ہے کہ روحانیت کی فتح ہو اور باطل دب جائے *۔ حل لغات :۔ لاجرم ۔ تاکید کے لئے ہے *۔