مِثْلَ دَأْبِ قَوْمِ نُوحٍ وَعَادٍ وَثَمُودَ وَالَّذِينَ مِن بَعْدِهِمْ ۚ وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْمًا لِّلْعِبَادِ
نوح کی قوم اور عاد اور ثمود اور ان لوگوں کے حال کی مانند سے جو ان کے بعد تھے اور اللہ اپنے بندوں پر کسی طرح کے ظلم کا ارادہ نہیں کرتا۔
(ف 1) تم بھی کہیں قوم نوح الور ثمودکی طرح کے عذاب کا شکار نہ بن جاؤ اے قوم مجھے اندیشہ ہے ۔ کہ قیامت کے دن جب تم موقف حساب سے پشت پھیر کر دوزخ کی طرف لوٹو گے ۔ تو تمہیں کوئی قوت نہ بچا سکے گی ۔ اس وقت یہ حکومت واقتدار اور بادشاہت اور اختیارات تمہارے کام نہ آسکیں گے ۔ تم کو معلوم ہے کہ جب حضرت یوسف تم میں پہلے پہل تشریف لائے تھے ۔ اور انہوں نے دلائل وشواہد سے اپنی نبوت کا اعلان کیا تھا ۔ تو تم اس وقت بھی شک وشبہ میں مبتلا رہے ۔ اور پھر جب ان کا انتقال ہوگیا ۔ تو تم نے ازراہ محرومی وبدبختی کہا ۔ کہ اچھا ہوا ۔ اب ان کے بعد تو کوئی شخص نہ آئے گا ۔ اور ہم کو عیس وعشرت کی زندگی سے نہ منع کریں گا اس وقت بھی تم نے خباثت نفس کا ثبوت دیا ۔ اور اسی وقت بھی تم توفیق ہدایت سے محروم ہورہے ہو ۔ یقینا ایسے فساق کو جو طبیعت کے شکی ہوں ۔ کبھی معاوت سے بہرہ مندی حاصل نہیں ہوتی ۔ معلوم ہوتا ہے ۔ یہ مرد مومن قوموں اور ملتوں پر جو عذاب آتا ہے اس کی حکمت کو خوب سمجھتا ہے ۔ ایسی لئے جہاں اپنی قوم کو تباہی اور ہلاکت سے متنبہ کرتا ہے ۔ وہاں کہتا ہے ۔ وما اللہ یرید ظلما للعباد یعنی یہ عذاب جو آتا ہے تو اس لئے نہیں ۔ کہ خدا کا جذبہ انتقام بھڑک اٹھتا ہے اور محض مظاہرہ جلال وجبروت میں اور انسان کے ایک طبقہ کو فنا کے گھاٹ اتاردیتا ہے ۔ بلکہ یہ مصلحت پر مبنی ہوتا ہے ۔ قوموں کو اس وقت ہلاک کیا جاتا ہے ۔ جب ان کے اعمال کی سمیت سارے جسم انسانی میں سرایت کرجائے ۔ اور خطرہ ہو کہ اس کا بقا آئندہ نسلوں کے لئے تباہ کن ہوگا ۔ اس وقت ان کو سزا دی جاتی ہے ۔ اور جسم انسانی سے ان کے تعلق حیات کو منطق کردیا جاتا ہے ۔ تاکہ جسم کا دوسرا حصہ آفت دنیا سے بچ جائے ۔ جس طرح زندگی قائم رکھنے کے لئے انسان کے بعض اعضاء کو کاٹ دیا جاتا ہے ۔ اور یہ عمل اس کے ساتھ مہربانی اور کرم گستری کا سمجھا جاتا ہے ۔ اسی طرح ان قوموں کو تباہ کردینا ۔ جن کے گناہوں سے ساری کائنات انسانی کے لئے خطرہ ہو نفس انسانیت کے ساتھ بہترین سلوک روا رکھنا اور زندگی کو بچا لینا ہے ۔ حل لغات :۔ التناد ۔ پکار ۔ دعوت * ان یبعت اللہ یہ ملحوظ رہے کہ یہ قبطیوں کا عقیدہ نہیں تھا ۔ کیونکہ وہ تو حضرت یوسف کو پیغمبر ہی نہیں مانتے تھے ۔ بلکہ یہ اظہار مسرت کا ایک انداز تھا ۔ غرض یہ تھی کہ اچھا ہوا اس مصیبت سے پیچھا چھوٹا ۔ یعنی یہ ان کی خواہش تھی کہ اب کوئی دوسرا پیغمبر تشریف نہ لائے ۔ اور ہم کو نصیحت نہ فرمائے ۔ پیشگوئی نہ تھی ۔ جیسا کہ علامہ رازی نے تصریح فرمائی ہے ۔ کہ یہ انہوں نے علی سبیل التشھی کہا تھا *۔