يَا قَوْمِ لَكُمُ الْمُلْكُ الْيَوْمَ ظَاهِرِينَ فِي الْأَرْضِ فَمَن يَنصُرُنَا مِن بَأْسِ اللَّهِ إِن جَاءَنَا ۚ قَالَ فِرْعَوْنُ مَا أُرِيكُمْ إِلَّا مَا أَرَىٰ وَمَا أَهْدِيكُمْ إِلَّا سَبِيلَ الرَّشَادِ
اے میری قوم ! آج تمھی کو بادشاہی حاصل ہے، اس حال میں کہ (تم) اس سر زمین میں غالب ہو، پھر اللہ کے عذاب سے کون ہماری مدد کرے گا، اگر وہ ہم پر آ گیا ؟ فرعون نے کہا میں تو تمھیں وہی رائے دے رہا ہوں جو خود رائے رکھتا ہوں اور میں تمھیں بھلائی کا راستہ ہی بتا رہا ہوں۔
(ف 1) حالانکہ وہ بےشمار دلائل بھی اپنی صداقت کے ثبوت میں پیش کرچکا ہے اس لئے بہتر رائے یہ ہے کہ تم اسے کچھ نہ کہو ۔ اگر یہ جھوٹا ہے تو اپنی سزا خودبھگت لے گا اور اگر صداقت شعار ہے تو پھر وہ عذاب ضرور آئیگا جس کا وہ تم سے وعدہ کررہا ہے۔ اور یاد رکھو کہ آج یقینا ارض مصر میں تمہاری بادشاہی ہے مگر جب اللہ کے غضب اور غصہ میں تحریک ہوئی تو کون ہماری مدد کریگا ۔ مرد مومن کی وسعت نظری : مرد مومن نے قوم کو ارادہ قتل سے باز رکھنے کی کوشش کی بہت عقل مند اور صاحب بصیرت آدمی معلوم ہوتا ہے اور ان کی گفتگو سے یہ بھی ٹپکتا ہے کہ اسے اقوام وملل کی تاریخ پر پورا عبور حاصل تھا ۔ چنانچہ جب فرعون نے اس کے جواب میں کہا کہ میری تو یہی رائے ہے جس کو میں بیان کرچکا ہوں اور میں تمہیں بالکل مصلحت کی باتیں بتاتا ہوں تو اس نے جواباً اپنی تقریر کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ اے قوم تم جو چاہو اپنے لئے طے کرلو مجھے تو ڈر ہے کہ تمہارا حشر بھی کہیں وہ نہ جو پہلی قوموں کا ہوا ۔ حل لغات : بَأْسِ اللَّهِ۔ اللہ کا عذاب۔