سورة غافر - آیت 7

الَّذِينَ يَحْمِلُونَ الْعَرْشَ وَمَنْ حَوْلَهُ يُسَبِّحُونَ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَيُؤْمِنُونَ بِهِ وَيَسْتَغْفِرُونَ لِلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا وَسِعْتَ كُلَّ شَيْءٍ رَّحْمَةً وَعِلْمًا فَاغْفِرْ لِلَّذِينَ تَابُوا وَاتَّبَعُوا سَبِيلَكَ وَقِهِمْ عَذَابَ الْجَحِيمِ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

وہ (فرشتے) جو عرش کو اٹھائے ہوئے ہیں اور وہ جو اس کے ارد گرد ہیں اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کرتے ہیں اور اس پر ایمان رکھتے ہیں اور ان لوگوں کے لیے بخشش کی دعا کرتے ہیں جو ایمان لائے، اے ہمارے رب! تو نے ہر چیز کو رحمت اور علم سے گھیر رکھا ہے، تو ان لوگوں کو بخش دے جنھوں نے توبہ کی اور تیرے راستے پر چلے اور انھیں بھڑکتی ہوئی آگ کے عذاب سے بچا۔

تفسیرسراج البیان - محممد حنیف ندوی

فرشتے مسلمانوں کے لئے بخشش طلب کرتے ہیں (ف 1) ایک طرف دنیا کے بے بصیرت لوگ حضور (ﷺ) کی مخالفت کررہے تھے ۔ اور آپ کو اور آپ کی جماعت کو حقارت اور ذلت کی نظروں سے دیکھ رہے تھے ۔ دوسری طرف اللہ کو یہ منظور تھا کہ آسمانوں میں اللہ کی بہترین مخلوق حمد وستائش کے ترانوں اور نغموں کے ساتھ مسلمانوں کے لئے بخشش اور مغفرت طلب کریں ۔ چنانچہ ارشاد ہے کہ وہ ملائکہ جو عرش عظیم کو اپنے کندھوں پر اٹھائے ہوئے ہیں ہر آن تسبیح وتحمیدمیں مصروف ہیں ۔ وہ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں اور ایمان والوں کے لئے خلوص قلب کے ساتھ بخشش طلب کرتے ہیں ۔ اور کہتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار تیری رحمت اور تیرا علم ہر چیز پر شامل ہے ۔ تو ان لوگوں کو جو تائب ہوچکے ہیں اور جنہوں نے تیرے دین کی پیروی اختیار کی ہے بخش دے اور ان کو دوزخ کے عذاب سے بچادے ۔ اور اے ہمارے پروردگار ان کو حسب وعدہ جنت میں جگہ دے ۔ اور ان کے ماں باپ اور بیبیوں اور اولاد میں جو لائق ہوں ان کو بھی ان نعمتوں میں شریک کرلے تو زبردست حکمت والا ہے ۔ اور ان کو ہر طرح دکھ اور تکلیف سے بچا ۔ یقینا تیری رحمت ہوگی اور ان کے لئے بڑی کامیابی ۔ اس ضمن میں دو چیزیں قابل غور ہیں ۔ ایک تو یہ کہ عرش عظیم کو اٹھانے کے معنی کیا ہیں کیا یہ عرش اللہ کی قرار گاہ نہیں ہے ؟ اور کیا اس کو اٹھانے کے معنی یہ نہیں ہیں کہ اس دن فرشتے خدا کو اپنے کندھوں پر اٹھالیں گے ؟ ان شکوک کا جواب یہ ہے کہ سب سے پہلے اس چیز پرغور کرنا چاہیے کہ اللہ کے متعلق قرآن نے کس تخیل کو پیش کیا ہے ؟ اور اس کے بعد یہ چیز سوچنے کی ہے کہ عرش کے ساتھ اللہ کی وابستگی کس نوع کی ہے ؟ اس کے بعد غالباً اس قسم کے شکوک پیدا نہیں ہوسکتے ہیں بشرطیکہ وہ تخیل اور وابستگی اسی طرح کی ہو ۔ جس طرح کہ ذہین میں متبادر ہوتی ہے اور اگر قرآن صاف صاف کئی بار یہ اعلان کردے کہ خدا ہر چیز کا خالق ہے ﴿لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ کا مصداق ہے ۔ جسمانیات سے معرا اور پاک ہے ۔ مقام اور مکان کا محتاج نہیں اور عرش سے تعلق محض تجلیات کا ہے کہ وہ اس کو بطور تجلی گاہ کے استعمال کرتا ہے تو پھر سرے سے کوئی سوال ہی پیدا نہیں رہتا ۔ دوسری بات یہ ہے کہ جب فرشتے اللہ کی تجلیات کو براہ راست اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہونگے اور اس کے عرش تجلیات کو اپنے کندھوں پر اٹھائے ہونگے تو پھروہاں اس چیز کے ذکر کی کیا حاجت تھی کہ وہ اس پر ایمان رکھیں گے ۔ کیونکہ ایمان کا تحقق تو وہاں ہوتا ہے جہاں مشاہدہ نہ ہو بلکہ نظر استدلال ہو۔ اور یہاں خدا کی تجلیات کا مشاہدہ ہے جواب یہ ہے کہ اللہ کی عظمت اور جلالت قدر کا تقاضا یہ ہے کہ باوجودانتہائی قرب کے بھی وہاں بےشمار ایسے حجابات نور ہوں ۔ جو اس کی ذات اور تجلیات کے مشاہدہ کرنے والوں کے درمیان حائل ہوں گے ۔ اور وہاں عین اللہ کی حضوری میں بھی انسان مشاہدہ ذات پر قادر نہ ہوسکے ۔ بلکہ بصیرت ہی راہنمائی کرے گی ۔ اور ایمان ہی تسکین بخشے گا۔ ہاں یہ درست ہے کہ یہ ایمان قوت واستحکام میں اس ایمان سے بدرجہاں مختلف ہے جو نظرواستدلال سے پیدا ہوتا ہے ۔