سورة الزمر - آیت 67

وَمَا قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ وَالْأَرْضُ جَمِيعًا قَبْضَتُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَالسَّمَاوَاتُ مَطْوِيَّاتٌ بِيَمِينِهِ ۚ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَىٰ عَمَّا يُشْرِكُونَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور انھوں نے اللہ کی قدر نہیں کی جو اس کی قدر کا حق ہے، حالانکہ زمین ساری قیامت کے دن اس کی مٹھی میں ہوگی اور آسمان اس کے دائیں ہاتھ میں لپیٹے ہوئے ہوں گے۔ وہ پاک ہے اور بہت بلند ہے اس سے جو وہ شریک بنا رہے ہیں۔

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

ف 1: یعنی اللہ تعالیٰ کی جلالت قدر کا تقاضا تو یہ تھا ۔ کہ کسی شخصیت کو کو اس کا شریک و سہیم نہ ٹھہرایا جاتا ۔ اور اس کے عتبہ جمال پر جنبہ سائی کی جاتی ۔ مگر ان ناشنا سان جمال حقیقت نے پتھروں کے حقیر مجسموں کو اپنی عقیدت واردات کا مدار ومحور قرار دے لیا ۔ اور اس طرح اس کی توہین مرتکب ہوئے وہ تنہا تمام کائنات کا رب ہے ۔ قیامت کے دن یہ وسیع وعریض زمین اور بلندوبالا آسمان اس کی مٹھی میں اور اس کے ہاتھ میں ہوں گے ۔ کیا تمہارے بتوں اور خداؤں میں یہ طاقت ہے کہ وہ اس دن اللہ کی گرفت اور پکڑ سے بچ سکیں *۔