وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ تَرَى الَّذِينَ كَذَبُوا عَلَى اللَّهِ وُجُوهُهُم مُّسْوَدَّةٌ ۚ أَلَيْسَ فِي جَهَنَّمَ مَثْوًى لِّلْمُتَكَبِّرِينَ
اور قیامت کے دن تو دیکھے گا کہ وہ لوگ جنھوں نے اللہ پر جھوٹ باندھا ان کے چہرے سیاہ ہوں گے، کیا جہنم میں ان متکبروں کے لیے کوئی ٹھکانا نہیں ؟
افتراء علی اللہ کا انجام (ف 1) اللہ کے متعلق جھوٹ بولنے کے معنی یہ ہیں کہ وہ لوگ جو اللہ کی طرف منسوب کرتے ہیں ۔ جن سے اس کی ذات عظمت صفات انکار کرتی ہے ۔ وہ گویا غلط باتوں کو غلط عقائد کو اس کی طرف سے پھیلاتے اور مشتہر کرتے ہیں ۔ ان لوگوں کی کیفیت قیامت کے دن یہ ہوگی کہ ان کے چہرے بےنور ہونگے ۔ اور کفر وشرک کی ظلمت اور سیاہی نے ان کو بدزیب کررکھا ہوگا ۔ کیونکہ وہ دنیا میں اس نوع کے عقائد کی اس لئے اشاعت کرتے تھے کہ عوام میں ان کی عزت افزائی ہو ۔ اور موحدین کے مقابلہ میں ان کی زیادہ آؤ بھگت ہو ۔ اب مکافات عمل کے قانون کے ماتحت ان کا یہ اعزاز جس کی خاطر سے یہ لوگ کفر وشرک کی تلقین کرتے تھے ۔ تذلیل و تحقیر سے بدل دیا جائے گا ۔ اور چہرہ کی آب وتاب جاتی رہے گی ۔ ان کا غرور اور تکبر خاک میں مل جائیگا ۔ اور ان کو معلوم ہوجائے گا کہ دنیا کی وجاہت اور عزت محض بیکار ہے ۔ اس کا اعزاز یہ ہے کہ اللہ کے ہاں سرخروئی ہو ۔ اور وہ ان کے ساتھ عزت واحترام کا سلوک روا رکھے ۔ (ف 2) جہاں یہ بتایا ہے کہ یہ منکرین جہنم میں جائیں گے اور بےآبروئی کی زندگی بسر کریں گے متقین اور پاکبازوں کے متعلق ارشاد فرمایا کہ ان کو کامیابی کے ساتھ نجات سے نوازا جائے گا ۔ اور ان کی زندگی بالکل عیش اور آسودگی کی زندگی ہوگی ۔ ان کو وہاں کوئی فکر دامن گیر نہ ہوگا ۔ نہایت سکون ووقار کیساتھ یہ لوگ اللہ کی عنایتوں سے مستفید ہوں گے اور اپنی خوش بختی پر ناز کریں گے ۔