قَدْ قَالَهَا الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ فَمَا أَغْنَىٰ عَنْهُم مَّا كَانُوا يَكْسِبُونَ
بلا شبہ یہی بات ان لوگوں نے کہی جو ان سے پہلے تھے تو ان کے کام نہ آیا جو وہ کمایا کرتے تھے۔
تکلیف میں خدا یاد آتا ہے ف 1: قاعدہ ہے ۔ کہ بھوک اور افلاس سے دل میقل ہوجاتا ہے اور اس کا رنگ دور ہوجاتا ہے ۔ اور فطرت کے انواداس میں چمکنے لگتے ہیں ۔ جب کوئی شخص تکلیف اور دکھ میں مبتلا ہوتا ہے ۔ تو بےاختیاری جی چاہتا ہے کہ خدا کو یاد کیا جائے ۔ اس وقت دل پرے تمام حجابات اٹھ جاتے ہیں ۔ اور انسان اللہ کے نام کے ساتھ ایک خاص طرح کی تسکین اور طمانیت محسوس کرتا ہے ۔ اور کیفیت یہ ہوتی ہے ۔ کہ اٹھتے بیٹھتے اللہ کا ذکر ہے اس کی حمدوستائش ہے ۔ اور شکر وصبر کا مظاہرہ ہے ۔ اس وقت کی کیفیات خشوع اگر دیر تک لوح قلب پر مرقسم ہیں تو بلاشبہ انسانی دولایت اور قرب کے مراتب عالیہ سے مشرف ہوجائے مگر ہوتا یہ ہے کہ جب یہ مصیبتیں دور ہوگئیں ۔ دل پر پھر کثیر اعجاب کی نقاب پرگئی ۔ اور دل بدستور غفلت وتساہل میں مبتلا ہوگیا ۔ خوشحالی میں یہ سمجھنے لگتا ہے ۔ کہ میری مسرتوں میں اللہ کا کوئی حصہ نہیں ہے ۔ میں نے جو کچھ حاصل کیا ہے ۔ وہ نتیجہ ہے میرے علم کا میری عقلمندی اور تجربہ کا ۔ فرمایا یہ غلط ہے ۔ یہ تو محض آزمائش وابتلاء کے لئے تمہارے حالات میں خوشگوار تبدیلی کی گئی ہے ۔ کہ تمہیں دیکھا جائے ۔ اور یہ معلوم کیا جائے ۔ کہ تمہارے جذبات شکرگزاری کہاں تک صادقانہ ہیں ۔ کیا مسرت اجتہاج کی زندگی میں بھی تمہاری وہی کیفیت ہوتی ہے جو غم اور تکلیف کی زندگی میں اور کیا خوشی میں بھی تم اسی طرح مجھ کو یاد کرتے ہو جس طرح کہ دکھ اور روگ میں ، غربت اور افلاس میں ارشاد ہے کہ اس اعجاب نفس کے مرض میں تم سے پہلے بھی لوگ مبتلا ہوچکے ہیں ۔ انہوں نے بھی انپے مال ودولت پر غرور وکبر کا اظہار کیا ہے ۔ مگر جب اللہ کا عذاب آیا ۔ تو ان کا سرمایہ اور دولت ان کو بچا نہیں سکی ۔ اسی طرح ان لوگوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ ان کی بداعمالیاں بھی حد سے گزر چکی ہیں ۔ یہ بھی مال ودولت کے نشہ میں چور ہیں اور حق وصداقت کے پیغام کو تسلیم نہیں کرتے ۔ یہ بھی عذاب سے دو چار ہونے والے ہیں ۔ ان کو آگاہ رہنا چاہیے ۔ کہ ان کا تمول ان کے قطعاً کام نہیں آسکے گا ۔ اور یہ یقینا گرفتار ابتلا ہوکر رہیں گے *۔