اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنفُسَ حِينَ مَوْتِهَا وَالَّتِي لَمْ تَمُتْ فِي مَنَامِهَا ۖ فَيُمْسِكُ الَّتِي قَضَىٰ عَلَيْهَا الْمَوْتَ وَيُرْسِلُ الْأُخْرَىٰ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ
اللہ جانوں کو ان کی موت کے وقت قبض کرتا ہے اور ان کو بھی جو نہیں مریں ان کی نیند میں، پھر اسے روک لیتا ہے جس پر اس نے موت کا فیصلہ کیا اور دوسری کو ایک مقرر وقت تک بھیج دیتا ہے۔ بلاشبہ اس میں ان لوگوں کے لیے یقیناً بہت سی نشانیاں ہیں جو غور و فکر کرتے ہیں۔
قیامت پر ایک دلیل (ف 1) حشر ونشر پر ایک نہایت عمدہ دلیل پیش فرمائی ہے کہ دیکھو کہ موت اور نیند میں کچھ زیادہ فرق نہیں ہے ۔ جس خدا کو یہ قدرت حاصل ہے کہ وہ تمہاری بیداری کو چھین لے اور اس کو خواب بےہوشی کی کیفیات سے بدل دے ۔ اور پھر جب مناسب سمجھے بیدار کردے ۔ وہ خدا اس چیز پر بھی قادر ہے کہ جب تم موت کی نیند سوجاؤ اس وقت بھی تمہیں پھر جب چاہے اٹھا کھڑا کرے ۔ کیونکہ جس نے بیداری اور نیند کے نظام کو وضع کیا ہے وہی موت اور حیات پر بھی اختیار رکھتا ہے ۔ بتانا یہ مقصود ہے کہ خود انسانی زندگی معارف سے پر ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ صاحب فکر وہوش سوچیں ۔ اور بغیر ادنیٰ تامل کے یہ نہ کہہ دیا کریں کہ صاحب یوں ہونا تو ناممکن ہے ۔ جب تک کائنات کی خوب چھان بین نہ کریں ۔ حل لغات: يَتَوَفَّى۔ سے مراد مطلق روح پر ضبط واختیار حاصل کرنا ہے ۔ اس لئے جس کی دو صورتیں بیان کی ہیں ۔ ایک تو یہ کہ وہ ضبط اور اختیار اس نوع کا ہو کہ پھر روح کو جسم سے الگ کرلیا جائے ۔ اور ایک یہ کہ صرف بیداری کو چھین لیا جائے ۔ اور تعلق حیات بدستور باقی رہے ۔ اس چیز کو امساک اور ارسال سے تعبیر کیا ہے ۔