لَأَمْلَأَنَّ جَهَنَّمَ مِنكَ وَمِمَّن تَبِعَكَ مِنْهُمْ أَجْمَعِينَ
کہ میں ضرور بالضرور جہنم کو تجھ سے اور ان سب لوگوں سے بھر دوں گا، جو ان میں سے تیری پیروی کریں گے۔
شیطان نے کیوں گستاخی کی ف 1: شیطان کے انکار سے طبیعتوں میں یہ شبہ پیدا ہوتا تھا ۔ کہ اس کو اس کے قرب کے باوجود اور یہ جانتے ہوئے ۔ کہ اللہ کے حکموں کی مخالفت کی سزا کتنی سخت ہوسکتی ہے ۔ یہ جرات کیسے ہوئی ۔ کہ صاف صاف بغاوت کا اظہار کرے ۔ اور خدا کے حضور میں برملا کہہ دے ۔ کہ میں آپ کے اس حکم کو ماننے کے لئے تیار نہیں ہوں ۔ جہاں تک گناہوں کی نفسیات کا تعلق ہے ۔ ان کی وجہ یہ ہوئی ہے ۔ کہ انسان کو ان کے خوفناک نتائج کا قطعی علم نہیں ہوتا ۔ اور اللہ پر بحکم اور مضبوط ایمان نہیں ہوتا ۔ اور اگر نتائج کے متعلق یقینی علم ہو ۔ تو پھر معصیت پر جسارت کا حوصلہ کم ہوتا ہے ۔ کیا وہ شخص جس کے سامنے سمندر متلاطم ہو ۔ اس میں کود سکتا ہے ۔ جو اپنی آنکھوں کے سامنے آگ کا الاؤ دیکھ رہا ہو ۔ کیا وہ اس میں اپنے کو جھونک سکتا ہے ؟ کیا یہ ممکن ہے کہ کوئی شخص سوراخ میں بچھو یا سانپ اپنی آنکھ سے دیکھے اور بھر اس میں اپنی انگلی ڈال دے اگر یہ ممکن نہیں ہے ۔ تو پھر یہ کیونکر ہوسکتا ہے ۔ کہ شیطان جس کو خدا سے حددرجہ قرب حاصل تھا ۔ خدا کی گفتگو کو سنتا تھا ۔ اور محسوس کرتا تھا ۔ کہ وہ اپنی جلالت قدر اور عظمت میں کتنا بڑا ہے ۔ اور یہ بھی جانتا تھا ۔ کہ اس کی مخالفت کے معنے اس کے غضب واقتدار کو آزمانا ہے ۔ اس کی مخالفت پر آمادہ ہوجائے ۔ اور یک بیک باغی ہوجائے ۔ اور جرات کے ساتھ کہہ دے کہ میں آدم کے سامنے نہیں جھک سکتا ؟*۔ ان آیتوں میں اللہ نے اتنی بڑی گستاخی اور اتنی بڑی جسارت کا سبب بتادیا ہے ۔ بات یہ ہے کہ باوجود قرب اور حضوری کے ہزاروں ایسے حجاب ہیں جو درمیان میں حائل ہیں ۔ یہ درست ہے کہ شیطان ہم سے زیادہ مقام تزلف پر فائز تھا ۔ مگر اسی تناسب کے ساتھ اس میں اور اللہ میں حجابات بھی زیادہ تھے اور وہ جس حجاب کی وجہ سے اس تقرب سے محروم ہوا ۔ وہ حجاب کبروغرور ہے ۔ اس نے اس کے مرتبہ ومقام کو اس کے ذہن سے اوجھل کردیا ۔ اس کی وجہ سے یہ بھول گیا ۔ کہ میں اس وقت کس جناب عالی وقار سے گفتگو کررہا ہوں ۔ اس لئے گستاخی کا مرتکب ہوا ۔ اور مردود قرار پایا ہوسکتا ہے یہ گفتگو ان معنشوں میں نہ ہو ۔ جن میں ہم سمجھتے ہیں ۔ اور صرف یہ بتانا مقصود ہو کہ جہاں تک مقتضائے طبیعت ہے ۔ دنیائے کون میں دو طرح کے عناصر ہیں ۔ ایک وہ ہیں جو انسان کے تابع اور مسخر ہیں ۔ یا اسکا اس کے عزائم خیر میں ساتھ دیتے ہیں اور دوسرے طبعات اس کے مخالف اور سرکش وباغی ہیں ۔ خدا کے نیک بندوں کا فرض یہ ہے کہ وہ نیابت الٰہیہ کے فرض کو خوبی کے ساتھ انجام دیں ۔ اور ہر دو قسم کے عناصر پر قبضہ وقدرت حاصل کرلے ۔ واضح رہے کہ شکایت حال وطبیعت کے لئے بھی قال وقیل کے الفاظ عربی میں مستعمل ہیں ۔ جیسے اذا متلاء الحوض قال قطنی اس لئے یہ توجیہہ بھی لائق اغناء ہے ۔ اس طرح گویا قصہ کی یہ نوعیت ہی بدل جائے گی ۔ اور مدعا یہ قرار پائیگا ۔ کہ رب فاطر انسان کو اس مکالمہ کے ذریعہ اس کی عزت اور اس کے مقام اور مرتبہ سے آگاہ کرنا اور اس میں تفوق وبرتری کے احساسات پیدا کرنا چاہتا ہے ۔ حل لغات :۔ رجیم ۔ مرود * انظرنی ۔ مجھے مہلت دیجئے * من المتکلفین ۔ یعنی میں جس سیرت کا اظہار کر رہا ہوں ۔ اس میں سراسر حقیقت اور واقیت ہی ہے نمائش اور بناوٹ کو اصلا دخل نہیںَ