سورة ص - آیت 0

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اللہ کے نام سے جو بے حد رحم والا، نہایت مہربان ہے۔

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

سورہ ص ٓ ف 2: یہ سورۃ مکی ہے ۔ اور اس کا آغاز بھی عام طور پر مکی سورتوں کے انداز کے مطابق قرآن کے تعارف سے ہوا ہے ۔ ص ۔ حروف مقطعات میں سے ہے ۔ جس کی تفصیل سورۃ بقرہ کے ضمن میں بیان کی جاچکی ہے ۔ قسم سے مراد استشہاء ہے ۔ جیسا کہ آپ گزشتہ صفحات میں پڑھ چکے ہیں ۔ یہاں مقصود یہ ہے کہ قرآن کی صداقت پر خود قرآن پیش کیا جائے ۔ اور اس کے اس پہلو کو نمایا کیا جائے ۔ کہ اس میں عالم انسانی کے لئے رشدوہدایت کا وافر سامان موجود ہے ۔ یہ ذکرونصیحت ہے اور برکت وسعادت ہے ۔ یعنی اگر قرآن کی تفصیلات پر اجمالی نظر ڈالی جائے ۔ تو اس کا منجانب اللہ ہونا خود بخود ثابت ہوجائے گا ۔ کہ اس کو پیش کرنے والا اللہ کا سچا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہے ۔ ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے ۔ کہ جب اس کی حقانیت اس درجہ ظہر اور واضح ہے ۔ تو پھر شکوک وشبہات کیوں پیدا ہوتے ہیں ۔ اور کیوں یہ مکے والے اس کی صداقتوں سے محروم ہیں ۔ جواب ارشاد فرمایا ۔ کہ اصل میں تعصب وغرور اور مخالفت وعناد کے جذبہ نے انہیں اندھا کر رکھا ہے ۔ ورنہ اس کلام الٰہی میں کفر وانکار کی قطعات گنجائش نہیں جانتے ہیں ۔ کہ ان سے پہلے بہت سی قومیں اسی تعصب اور حق کی دشمنی کی وجہ سے ہلاک ہوچکی ہیں ۔ اس لئے ان کا انجام بھی یہی ہوسکتا ہے ۔ اگر یہ برابر اس حقیقت کبریٰ کی مخالفت پر کمر بستہ رہے *۔ فرمایا ۔ ان کو تعجب میں ڈالنے والی یہ بات ہے کہ آخر اللہ نے اس عہدہ جلیلہ کے لئے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عربی کو کیوں پسند فرمایا ۔ حالانکہ جہاں تک دنیوی وجاہتوں اور انسانی فضائل ومحاسن کا تعلق ہے ۔ یہ لوگ بھی ان چیزوں میں آپ کے برابر کے شریک ہیں ۔ بلکہ بعض باتوں میں تو ان کا دعوی ہے کہ ہم ان سے کہیں بڑھ کر ہیں ۔ پھر دوسری چیزوں کا ان کے لئے حیران کن ہے ۔ وہ تو حید کا عقیدہ ہے *۔ حل لغات :۔ عزۃ ۔ یعنی غلبہ نفس کے مرض میں مبتلا ہیں * مناص ۔ ناص ۔ نیوص سے ہے ۔ بمعنی خلاصی *۔