إِنَّهُ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِينَ
یقیناً وہ ہمارے مومن بندوں میں سے تھا۔
سدومیوں کی بداعمالیاں ف 2: سدومی لوگوں میں خواہشات نفس کی تکمیل کا مادہ حد سے زیادہ بڑھ گیا تھا ۔ یہ دن رات ناپاک خیالات میں مستغرق رہتے اور اللہ کے قانون کو توڑتے ۔ ان کی فطرت مسخ ہوچکی تھی ۔ اس لئے ان میں جذبات جنسی کو پورا کرنے کا اندازہ ایک قلم بیہودہ اور غیر موزوں تھا ۔ حضرت لوط ان میں اس غرض کے لئے تشریف لائے کہ اس مرض مزمن کی اصلاح کریں ۔ اور ان کو بتائیں کہ اس جرم عظیم کے ہولناک نتائج کس صورت میں ظہور پذیر ہوئے ہیں ۔ انہوں نے بتایا کہ یہ ارتکاب غیر فطری ہے ۔ مضر ہے ۔ اور مہلک ہے ۔ تم اس سے بازآجاؤ۔ ان لوگوں میں قوت ارادی کی کمی تھی ۔ اور خبث عمل کا زہر ان کی رگوں میں پوری طرح سرایت کرچکا تھا ۔ اس لئے حضرت لوط (علیہ السلام) کی تعلیمات اور خصائح کا ان پر کوئی اثر نہ ہوا ۔ اور یہ سودا ان میں بڑھتا گیا ۔ یہاں تک کہ اللہ کا قانون مکافات حرکت میں آیا ۔ اور فیصلہ ہوا کہ اس بدکردار قوم کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا جائے ۔ تاکہ ان کی بداعمالیاں دوسروں تک متجاوزنہ ہوں چنانچہ ان کی بستیاں الٹ دی گئیں ۔ اور پتھروں کی ایسی بارش ہوئی ۔ کہ یہ لوگ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے دنیا سے غارت ہوگئے ۔ اس ضمن میں یہ بات لائق غوروفکر ہے ۔ کہ یہ علت اللہ تعالیٰ کے نزدیک کس درجہ قابل اصلاح ہے ۔ کہ اس کے دور کرنے کے لئے ایک پیغمبر بھیجا جاتا ہے ۔ جو قوم کی طرف سے دلخراش طعنے سنتا ہے ۔ اور برابر اپنے اس اخلاقی مشن کی تبلیغ میں مصرروف ہے ۔ یعنی جب قوم میں یہ مرض عام ہوجائے ۔ تو پھر شرم ولحاظ کو بالائے طاق رکھ کر پیغمبرانہ عزنیت کے ساتھ اس کا مقابلہ کرنا ضروری ہے اور حقیقت یہ ہے کہ شرمناک پوزیشن یہ نہیں ہے کہ اس مرض کی اصلاح کے لئے درد مندانہ کوشش کی جائے ۔ بلکہ شرمناک یہ بات ہے کہ قوم کے نوجوان اس مہلک بیماری میں مبتلا ہوں ۔ اور اس کے ازالہ کے متعلق کچھ نہ سو چا جائے *۔ اس وقت نگران ناپاک خیال کے لوگوں کو آسمانی عذاب کے ذریعے ہلاک کردیا گیا تھا جو آج بھی یہ مرض قوموں اور نسلوں کو تباہ کررہا ہے ۔ اس سے اچھے باغ تباہ ہوجاتے ہیں کیرکٹر فنا ہوجاتا ہے اور تنومند اور باحوصلہ قوم کی تشکیل نہیں ہوتی ۔ اور پھر ایک وقت آتا ہے کہ اس نوع کے لوگ بقالالاصلاح کے قانون کے مطابق خود بخود مٹ جاتے ہیں *۔ حل لغات :۔ بعلا ۔ ان ہشام کا ایک بت ہے جو ہونے کا تھا ۔ ہوسکتا ہے اس کے معنے مطلقاً معبود کے ہوں اور مقصد یہ ہو ۔ مگر خلاق اکبر کی طرف تمہارا ذہن اہلسنت نہیں ہوتا ۔ بعل کے اصل معنے صاحب اور مالک کے ہیں شوہر کو غالباً اسی مناسبت سے بعل کہا جاتا ہے *۔