وَبَارَكْنَا عَلَيْهِ وَعَلَىٰ إِسْحَاقَ ۚ وَمِن ذُرِّيَّتِهِمَا مُحْسِنٌ وَظَالِمٌ لِّنَفْسِهِ مُبِينٌ
اور ہم نے اس پر اور اسحاق پر برکت نازل کی اور ان دونوں کی اولاد میں سے کوئی نیکی کرنے والا ہے اور کوئی اپنے آپ پر صریح ظلم کرنے والا ہے۔
ف 1: یہ ایک پرانا اختلاف ہے ۔ کہ ذبیچ کون ہے ۔ حضرت اسماعیل یا حضرت اسحاق ؟ صحیح اور محققانہ رائے یہ ہے کہ اس سعادت کا فخر حضرت اسمٰعیل کو حاصل ہوا ۔ دلائل یہ ہیں :۔ (1) قرآن کا انداز بیان اس پر شاہد ہے ۔ کیونکہ اس سارے واقعہ کو بیان کرنے کے بعد فرمایا ہے ۔ وبشرناہ باسحاق یتبا من الصالحین ۔ کہ ہم نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اسحاق کی نبوت اور سعادت کی خوشخبری سنائی ۔ دوسری جگہ فرمایا ہے ۔ کہ ہم نے اس بات کی بھی بشارت دی تھی ۔ کہ حضرت اسحاق کی نسل بڑھے گی ۔ اور ان کے ہاں یعقوب پیدا ہوں گے ۔ ومن وراء اسحاق یعقوب پھر یہ کیونکر ممکن ہے ۔ کہ جس بیٹے کو آئندہ چل کر نبوت کا اعزاز حاصل کرنا ہے ۔ اور جس کا ایک نسل کا باپ ہونا پہلے سے مقدور ومعلوم ہے ۔ اس کو ابراہیم ذبح کرنے کے لئے تیار ہوجائیں *۔ (2) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے متعلق ارشاد فرمایا ہے انا امن الذبحین ۔ یہاں غلام حلیم کا تذکرہ ہے اور دوسری جگہ تصریح فرما دی ہے کہ اس حلم وصبر کے مستحق حضرت اسماعیل (علیہ السلام) تھے ۔ واسمعیل والیسع وذوا الکفل کل من الصابرین *۔ (3) اسلوب بیان سے ظاہر ہے ۔ کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پہلے اولاد نہیں ہے ۔ اور وہ ایک ایسا مسعود مولود چاہتے ہیں ۔ جو ان کے منصب صلاح وتقویٰ ہی آپ کے پہلو ٹھے بیٹے تھے *۔ (4) آج تک نحر اور قربانی کی رسوم کا تعلق ارض بیت اللہ سے ہے ۔ اگر حضرت اسحق مراد ہوتے تو قربانی کا مرکز شام ہوتا *