سورة آل عمران - آیت 96

إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِي بِبَكَّةَ مُبَارَكًا وَهُدًى لِّلْعَالَمِينَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

بے شک پہلا گھر جو لوگوں کے لیے مقرر کیا گیا، یقیناً وہی ہے جو بکہ میں ہے، بہت بابرکت اور جہانوں کے لیے ہدایت ہے۔

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

پہلا گھر : (ف ١) خدا کا گھر جو تمام نسل انسانی کا مرکز عبادت ہے ‘ وہ صرف بیت اللہ الحرام ہے ، جہاں برکات وہدایات کے ہزاروں چشمے پھوٹتے ہیں اور جس میں عبادت ونیاز مندی کی لاکھوں نشانیاں پنہاں ہیں ، جو مقام ابراہیم (علیہ السلام) کے شرف سے مفتحز ہے اور جو روح وقلب کی عام سعادتوں کی ضامن وکفیل ہے اس لئے یہ دلیل ہے ، اس بات کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) خدا کے سچے پیغمبر تھے اور وہ لوگ جو ان کے نقش قدم پر چلتے ہیں ‘ وہ بھی صداقت وصفا کے پیکر ہیں ، غور کرو ایک غیر معروف شخص ایک بنجر اور سنگلاخ زمین میں ایک عبادت گاہ بناتا ہے ، جو بالکل سادہ ہے فن تعمیر کے لحاظ سے جس میں کوئی خوبی نہیں لیکن اس کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ دنیا کے ہر گوشے سے زائرین وعقیدت مند کھینچے چلے آتے ہیں ، کیا یہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے خلوص وجاذبیت کی بہترین دلیل نہیں ؟ اور کیا یہ اسلام کی صداقت کا بولتا ہوا ثبوت نہیں کہ اس گھر کو ساری دنیا کا گھر بنانے والے وہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں جو مکے جیسے گمنام شہر میں رہنے والے ہیں جن کے پاس نشرواشاعت کے وسائل قطعا موجود نہیں جو امی محض ہیں اور یتیم ہیں کہ باپ کے ظل شفقت ومحبت بالکل محروم ! ایسا انسان کعبۃ اللہ کی طرف لوگوں کو دعوت دیتا ہے ، اس کی مرکزیت کی طرف بلاتا ہے اور کہتا ہے آؤ سب ابراہیم (علیہ السلام) کے خلوص کو زندہ کریں ، سب رب بیت کی چوکھٹ پر جھک جائیں ، نتیجہ یہ ہے کہ ستر کروڑ انسان پانچ وقت مسجدوں میں پہنچتے اور کعبہ کی طرف سجدہ کناں ہوجاتے ہیں ، (آیت) ” فیہ ایت بینت مقام ابرھیم “۔