كُلُّ الطَّعَامِ كَانَ حِلًّا لِّبَنِي إِسْرَائِيلَ إِلَّا مَا حَرَّمَ إِسْرَائِيلُ عَلَىٰ نَفْسِهِ مِن قَبْلِ أَن تُنَزَّلَ التَّوْرَاةُ ۗ قُلْ فَأْتُوا بِالتَّوْرَاةِ فَاتْلُوهَا إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ
کھانے کی ہر چیز بنی اسرائیل کے لیے حلال تھی مگر جو اسرائیل نے اپنے آپ پر حرام کرلی، اس سے پہلے کہ تورات اتاری جائے، کہہ دے تو لاؤ تورات، پھر اسے پڑھو، اگر تم سچے ہو۔
(ف ٢) خدا کا دین چونکہ فطرت انسانی کی کمزوریوں کو سامنے رکھ کر تجویز کیا گیا ہے اس لئے اس میں کوئی بات بھی مضر یا غیر مرغوب نہیں ، البتہ بعض وقت علماء فکر ونظر اپنی طرف سے اس میں بعض تفاصیل ایسی پیدا کردیتے ہیں جو آیندہ چل کر دین کی سہولت وشگفتگی کے لئے مضر پڑتی ہیں ، اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں توضیح فرما دی کہ اصل دین میں یہودیوں کے لئے تمام پاکیزہ چیزیں حلال تھیں اور کھانے پینے کے معاملہ میں کوئی ناجائز پابندی نہ تھی ، مگر انہوں نے از راہ احتیاط بعض چیزیں تقشف اور زہد کو بڑھانے کے لئے اپنے اوپر حرام قرار دے لیں ، مثلا اونٹ کا گوشت حضرت یعقوب (علیہ السلام) عرق النساء کی وجہ سے استعمال نہیں فرماتے تھے ، مگر ان لوگوں نے مطلقا اس سے احتراز مناسب سمجھا ، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اسے حلال قرار دیا تھا ۔ فرمایا اس نوع کی زیادتیاں افتراعلی اللہ کے مترادف ہیں اور وہ شخص ظالم ہے جو زہد وتقشف کے نام پر خواہ مخواہ دین میں دشواریاں پیدا کرتا ہے ۔ (ف ٣) یہودیوں کو مسلک ابراہیمی پر گامزن ہوجانے کی تلقین کی ہے جو توحید وفطرت کی راہ ہے جس میں شرک وبدعات کی رسوم کو قطعا دخل نہیں ، واضح ، سہل اور بالکل صحیح مذہب ہے ۔ حل لغات : البر : بھلائی ، کامل نیکی ۔ حل : حلال : جائز ودرست ۔