يَا حَسْرَةً عَلَى الْعِبَادِ ۚ مَا يَأْتِيهِم مِّن رَّسُولٍ إِلَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِئُونَ
ہائے افسوس بندوں پر! ان کے پاس کوئی رسول نہیں آتا رہا مگر وہ اس کے ساتھ ٹھٹھا کیا کرتے تھے۔
ف 1: غرض یہ ہے جب انکار وسرکشی کی سزا ہلاکت ہے اور اقوام وعلل کی تاریخ بتارہی ہے ۔ کہ جب بھی اللہ کے پیغام کو ٹھکرایا گیا ہے موت اور تباہی نے آگھیرا ہے ۔ اور ناممکن ہے کہ کوئی گروہ اللہ کے اس قانون مکافات سے بچ سکے اور جب یہ بھی صحیح ہے کہ سب لوگوں کو خدا کے حضور میں پیش ہونا ضرور ہے اور اپنے اعمال کا جواب دینا ہے ۔ تو پھر اس کفر کا فائدہ کیوں نہ سب لوگ اس کی چوکھٹ پر جھکیں ۔ اور اس کی عظمت کا اقرار کریں ؟ کیوں نہ اس کے رسول کو عزت واحترام کی نگاہوں سے دیکھیں ۔ اور اپنی زندگی سنوار لیں ۔ کیوں نہ ایسا ہو کہ سب لوگ ایک رنگ میں نظر آئیں ۔ سب خدا کے پرستار نہیں ۔ سب کے دلوں میں خدا محبت ہو ۔ سب اسی سے ڈریں ۔ اور اسی سے ہر طرح بھلائی کی امید رکھیں *۔