إِنَّا نَحْنُ نُحْيِي الْمَوْتَىٰ وَنَكْتُبُ مَا قَدَّمُوا وَآثَارَهُمْ ۚ وَكُلَّ شَيْءٍ أَحْصَيْنَاهُ فِي إِمَامٍ مُّبِينٍ
بے شک ہم ہی مردوں کو زندہ کرتے ہیں اور ہم لکھ رہے ہیں جو عمل انھوں نے آگے بھیجے اور ان کے چھوڑے ہوئے نشان بھی اور جو بھی چیز ہے ہم نے اسے ایک واضح کتاب میں ضبط کر رکھا ہے۔
ضبط اعمال کا نظریہ ف 1: ضبط اعمال کانظریہ قرآن حکیم نے پیش فرمایا ہے ۔ اور یہ نظریہ ان محترعات علمی سے ہے جن کو آج پیش کیا جارہا ہے ۔ جہاں تک گفتگو کا تعلق تھا ۔ اب یہ مشاہدہ ہے ۔ کہ ہر لفظ جو زبان سے نکلتا ہے ۔ پتھر کے تموجات اس کو فضا میں پھیلا دیتے ہیں ۔ اور وہ گم نہیں ہوتا ۔ اور اگر کہیں ایسے آلات نصب ہوں ۔ جو ان تموجات کو اپنی گرفت میں لے سکیں ۔ تو فضا میں منتشر اقوال صاف سنائی دینے لگتے ہیں ۔ چاہے متکلم اور سامع میں ہزاروں کوس کا فاصلہ ہوا ۔ اس طرح یہ بھی صحیح ہے ۔ کہ نفس اعمال کے الزات بھی ضائع نہیں جاتے ۔ فضا میں ایسے برقی ذرات ہیں (الیکڑان) جو ان کو زندہ جاوید بنا دیتے ہیں ۔ مگر ابھی تک یہ نہیں معلوم ہوسکا ۔ کہ ان اعمال کے ضبط کی کیا ضرورت ہے ۔ بہرحال یہ مسئلہ کہ فرشتے اعمال کو لکھ لیتے ہیں ۔ صرف مذہبی افسانہ نہیں رہا ہے ۔ بلکہ یہ ایک طبعی حقیقت بن گیا ہے ۔ اور انسانی علم جس قدر آگے بڑھے گا ۔ وہ یہ دیکھے گا ۔ کہ مذہب اور سائنس کی حدود آپس میں مل رہی ہیں ۔ اور ان میں کوئی اختلاف نہیں ۔