سورة يس - آیت 1

س

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

یۤس۔

تفسیرسراج البیان - محممد حنیف ندوی

(ف 1) یہ سورۃ مکی ہے اس میں وہی مضامین ہیں جو تمام مکی سورتوں میں پائے جاتے ہیں ۔ یعنی قرآن کے فضائل اور محامد رسالت کا ذکر اور توحید کا تذکرہ یا حشر ونشر کے متعلق شکوک وشبہات کا بیان اور ان کا ازالہ ۔ قرآن میں جہاں جہاں قسمیں آئی ہیں وہاں ان سے مراد ایک قسم کا استشہاد اور استدلال ہوتا ہے ۔ مثلاً یہاں قرآن حکیم کو بطور مقسم بہ کے ذکر کیا ہے ۔ اور اس کے بعد فرمایا ہے کہ آپ بلاشبہ اللہ کے رسول ہیں جس کا مقصد یہ ہے کہ آپ کی نبوت اور رسالت پر بہترین دلیل خودیہ صحیفہ حکمت ہے ۔ اس میں جنتا غور کیجئے گا آپ کو معلوم ہوگا کہ یہ حیرت انگیز کتاب ہے ۔ اس کی بلاغت اس کا معارف سے معمور ہونا ۔ اس کا ایک خاص پیغام کا حامل ہونا ور مدلل ومبرہن ہونا یہ سب باتیں اس حقیقت پر شاہد عدل ہیں کہ یہ کتاب کسی انسان کے دماغ کا نتیجہ نہیں ہے ۔ پھر اس میں ایسے علمی خوارق ہیں جن پر کوئی بشر پہلے سے آگاہ نہیں ہوسکتا ۔ یہ واقعہ ہے کہ انسانوں کے لئے اس سے بڑا معجزہ اور کوئی نہیں ہوسکتا کہ ایک امی آج سے چودہ سو سال قبل ایک ایسی کتاب پیش کرے جو آج بھی نہ صرف لائق عمل ہو بلکہ واجب العمل ہو ۔ اور آج بھی جو مذہب کا تخیل پیش کرے وہ انسانی عقول نے صدیوں کے علم کے بعد حاصل کیا ہے ۔ اسی لئے ارشاد فرمایا ہے کہ اس قرآن حکیم کو دیکھو ۔ اس کی خوبیوں کی تخیل کرو ۔ اس کے فضائل کو ٹٹولو ۔ اور اس کے پیغام کو بنگاہ دقت وعبرت دیکھو ۔ تم بول اٹھو گے کہ اس کو پیش کرنے والا اللہ کا رسول ہے ۔ اور یہ ایسی کتاب ہے جو صراط مستقیم کی جانب دعوت دیتی ہے ۔ اور عزت ورحمت کا سزا وار بنادیتی ہے ۔ یہ اتمام حجت ہے ۔ ان لوگوں پر جو اس سے پیشتر فیوض نبوت سے محروم رہے ہیں ۔ اور جن کی یہ خواہش رہی ہے کہ ہم میں بھی کوئی پیغمبر مبعوث ہو ۔ جو ہمارے لئے شرف ومجد کا موجب ہو ۔ مگر اب جب ان کی آرزو پوری ہوچکی ہے اور اللہ کے فضل سے ایک داعی نے انہیں بیدار کرنا شروع کردیا ہے تو یہ اور زیادہ الجھ رہے ہیں ۔ اور عمداً صداقت کا انکار کررہے ہیں ۔ ان کے لئے فطرت کا فیصلہ یہی ہے کہ یہ ایمان کی دولت سے قطعی محروم رہیں ۔ ان کی گردنوں میں رسم ورواج کے گرانبار طوق پڑے ہیں ۔ اور ان کے آگے اور پیچھے تعصب وخود پسندی کی دیواریں کھڑی ہیں ۔ اس لئے ان میں یہ استعداد ہی نہیں رہی کہ ہدایت کو قبول کرسکیں اور حقائق کو دیکھ سکیں ۔ فرمایا کہ آپ چاہے ان کو کتنا ہی خشیت اور خوف الٰہی سے متاثر کریں ان پر مطلق اثر نہیں ہوگا ۔ ان کے دلوں میں وہ شئے لطیف ہی نہیں ہے اور وہ حس ہی موجود نہیں جو ایمان کا ذریعہ بن سکے ۔ کیونکہ متاثر تو وہ ہوتا ہے ۔ اور قلب تو اس شخص کا انوار قرآنی سے روشن ہوتا ہے ۔ جو قرآن کی پیروی کرے اور اس کی یہ خواہش ہو کہ قرآن کی برکتوں اور سعادتوں سے اپنا دامن بھرلے ۔ وہ رحمن سے ڈرتا ہے ۔ حالانکہ اس نے اس کو دیکھا تک نہیں ہے ۔ یہی لوگ درحقیقت بخشش اور اجر کے مستحق ہیں ۔ اور اس لائق ہیں کہ آپ ان کو باقاعدہ ان کی کامیابی پر خوشخبری سنائیں ۔