وَمِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ مَنْ إِن تَأْمَنْهُ بِقِنطَارٍ يُؤَدِّهِ إِلَيْكَ وَمِنْهُم مَّنْ إِن تَأْمَنْهُ بِدِينَارٍ لَّا يُؤَدِّهِ إِلَيْكَ إِلَّا مَا دُمْتَ عَلَيْهِ قَائِمًا ۗ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوا لَيْسَ عَلَيْنَا فِي الْأُمِّيِّينَ سَبِيلٌ وَيَقُولُونَ عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ وَهُمْ يَعْلَمُونَ
اور اہل کتاب میں سے بعض وہ ہے کہ اگر تو اس کے پاس ایک خزانہ امانت رکھ دے وہ اسے تیری طرف ادا کر دے گا اور ان میں سے بعض وہ ہے کہ اگر تو اس کے پاس ایک دینار امانت رکھے وہ اسے تیری طرف ادا نہیں کرے گا مگر جب تک تو اس کے اوپر کھڑا رہے، یہ اس لیے کہ انھوں نے کہا ہم پر اَن پڑھوں کے بارے میں (گرفت کا) کوئی راستہ نہیں اور وہ اللہ پر جھوٹ کہتے ہیں، حالانکہ وہ جانتے ہیں۔
بدترین تعصب : (ف ١) اہل کتاب میں یہودی بدترین تعصب کے حامل تھے ان کی ہر وقت یہ کوشش رہتی کہ مسلمانوں کو لوٹا جائے اور ان کے خون سے ہاتھ رنگے جائیں ، مسلمانوں کے باب میں وہ ہر قسم کے عذر اور خداع کو جائز قرار دیتے اور کہتے ، یہ ان پڑھ اور غیر سرمایہ دار لوگ ہر وقت ہماری جوع البقری کا شکار ہو سکتے ہیں اور ان کو دھوکا دینے اور لوٹنے میں مذہبا کوئی مضائقہ نہیں گویا یہ اصول کہ اقوی اضعف کو پامال کرے ‘ بڑا اصول ہے موجودہ یورپ نے اسے یہودیوں سے سیکھا ہے یہی وجہ ہے کہ تمام سفید فام اور باقتدار حکومتیں ضعیف اور ناتوانوں کو اپنا آزوقہ حیات سمجھتی ہیں اور اخلاقا وعرفا انہیں محکم دینے میں کوئی مضائقہ خیال نہیں کرتیں ۔ قرآن حکیم کہتا ہے کہ یہ طرز عمل اللہ تعالیٰ کے قانون انصاف وعدل کے خلاف ہے اور خدائے قدوس پر یہ زبردست الزام ہے اللہ تعالیٰ کسی حالت میں بھی تعصب کو جائز ودرست قرار نہیں دیتے ، انصاف وعدل بہرحال قابل لحاظ ہے ۔