وَقَالَ الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا لِلَّذِينَ اسْتَكْبَرُوا بَلْ مَكْرُ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ إِذْ تَأْمُرُونَنَا أَن نَّكْفُرَ بِاللَّهِ وَنَجْعَلَ لَهُ أَندَادًا ۚ وَأَسَرُّوا النَّدَامَةَ لَمَّا رَأَوُا الْعَذَابَ وَجَعَلْنَا الْأَغْلَالَ فِي أَعْنَاقِ الَّذِينَ كَفَرُوا ۚ هَلْ يُجْزَوْنَ إِلَّا مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ
اور وہ لوگ جو کمزور سمجھے گئے، ان لوگوں سے جو بڑے بنے تھے، کہیں گے بلکہ (تمھاری) رات اور دن کی چالبازی نے (ہمیں روکا) جب تم ہمیں حکم دیا کرتے تھے کہ ہم اللہ کے ساتھ کفر کریں اور اس کے لیے شریک ٹھہرائیں۔ اور وہ ندامت کو چھپائیں گے جب عذاب دیکھیں گے اور ہم ان لوگوں کی گردنوں میں جنھوں نے کفر کیا، طوق ڈال دیں گے۔ انھیں بدلہ نہیں دیا جائے گا مگر اسی کا جو وہ کیا کرتے تھے۔
زیر دتسوں کی گفتگو زبردستوں سے (ف 1) آفتاب جب چمکتا ہے تو یہ ناممکن ہے کہ لوگ اس کی روشنی کو محسوس نہ کریں ۔ رات کی تاریکی جب دور ہوتی ہے ۔ اور پوپھٹتی ہے تو ہر شخص ایک روحانی کیف کو محسوس کرتا ہے ۔ موسم بہار میں بوقلمون پھولوں کی بہار سے کون محظوظ نہیں ہوتا ؟ بالکل اس طرح دنیا میں طویل تاریکی اور ظلمت کے بعد مہر صداقت جب طلوع ہوتا ہے تو ساری دنیاکو منور کردیتا ہے ۔ جب فلاح وسعادت کی صبح رونما ہوتی ہے ۔ تو ہر سلیم الفطرت انسان اس کی کیفیتوں سے زندگی حاصل کرتا ہے اور جب کشت زار قلوب کی بہار کا موسم آتا ہے تو فیضان الٰہی کی تراوش ہوتی ہے ان کیفیات سے انکار کرنا جہود اور مجادلہ ہے ۔ اور چند حقیر دنیوی مصالح کا تقاضا ہے ورنہ کون ہے جو ان چیزوں کو دیکھے ۔ محسوس کرے ۔ اور بھلادے ۔ ان آیات میں قرآن حکیم اسی صداقت کا اظہار کرنا چاہتا ہے کہ ان لوگوں نے جو دنیا میں تکذیب اور سرکشی کو روا رکھا ۔ تو محض اس لئے کہ ان میں سے امراء کبراء عمائد اور بڑے بڑے مشائخ اپنے نشہ کبر میں سرشار تھے ۔ اور ان کی مصلحتوں کا تقاضا یہ تھا کہ اسلام کو ٹھکرایا جائے کیونکہ اسلام کے پھیل جانے سے ان کی عزت دینی اور وجاہت دنیوی خطرہ میں تھی ۔ ورنہ کوئی معقول عذر ان پیشوایان دین کے پاس نہ تھا ۔ اور نہ ان کے عقیدت مندوں کے پاس ۔ نہ سرمایہ داروں کے پاس اور نہ تہہ دست محتاجوں کے پاس ۔ بات صرف یہ تھی کہ یہ لوگ خود تو بتقاضائے مصلحت عمداً اسلام کو قبول نہیں کرتے تھے ۔ مگر ساتھ ساتھ یہ کوشش بھی کرتے تھے کہ عوام بھی اس نعمت سے محروم رہیں ۔ میدان حشر میں یہ لوگ اللہ کے دربار میں پیش ہوں گے ۔ اور اس کی حضوری میں اپنے جرائم پر نظر کریں گے تو ان کو سخت ندامت ہوگی ۔ اور اس وقت یہ کہیں گے کہ ہم سب کیوں اللہ کے اس فضل سے محروم رہے ! کمزو عقیدت مند گنہگار اپنے اکابر اور مرشدین سے کہیں گے کہ تم لوگوں نے اپنے مطلب اور خود غرضی کے لئے ہم کو اسلام کی برکات سے محروم رکھا ۔ اگر ہم اس معاملہ میں خالی الذہن ہوتے ، تو ضرور اسلام قبول کرلیتے ۔ تو اس وقت وہ بڑے بڑے لوگ کامل بےزاری کا اظہار کریں گے اور کہیں گے کہ ہم نے تمہیں کبھی ہدایت کی باتوں کو قبول کرلینے سے نہیں روکا ۔ تم اپنے اعمال کے آپ ذمہ دار ہو ۔ اس کا وہ یہ جواب دیں گے کہ پھر صبح وشام تمہاری سازشوں اور تدبیروں کا کیا مقصد تھا ۔ جو حق کے مقابلہ میں اختیار کی جاتی تھیں ۔ جب کہ تم ہم لوگوں کو کفر پر مجبور کرتے تھے اور شرک کے لئے آمادہ کرتے تھے ۔ فرمایا اس بحث اور الزام دہی سے اب کچھ حاصل نہیں ہوگا ۔ جہاں تک جرائم کا تعلق ہے تم دونوں برابر کے مجرم اور ذمہ دار ہو ۔ اس لئے اب ان مغرور گردنوں میں ذلت وحقارت کے طوق پہننے کے لئے تیار رہو ؟ حل لغات: مَكْرُ اللَّيْلِ۔ یعنی مکرکم أَسَرُّوا النَّدَامَةَ۔ ذوات الاضداد سے ہے ۔ اس کے معنی چھپانے کے بھی ہیں ۔ اور ظاہر کرنے کے بھی ۔ الْأَغْلَالَ۔ غل کی جمع ہے طوق رنجیر لوے کا حلقہ ۔ أَعْنَاقِ۔ جمع عق بمعنی گردنیں ۔