وَلِسُلَيْمَانَ الرِّيحَ غُدُوُّهَا شَهْرٌ وَرَوَاحُهَا شَهْرٌ ۖ وَأَسَلْنَا لَهُ عَيْنَ الْقِطْرِ ۖ وَمِنَ الْجِنِّ مَن يَعْمَلُ بَيْنَ يَدَيْهِ بِإِذْنِ رَبِّهِ ۖ وَمَن يَزِغْ مِنْهُمْ عَنْ أَمْرِنَا نُذِقْهُ مِنْ عَذَابِ السَّعِيرِ
اور سلیمان کے لیے ہوا کو (تابع کردیا)، اس کا صبح کا چلنا ایک ماہ کا اور شام کا چلنا ایک ماہ کا تھا اور ہم نے اس کے لیے تانبے کا چشمہ بہایا، اور جنوں میں سے کچھ وہ تھے جو اس کے سامنے اس کے رب کے اذن سے کام کرتے تھے اور ان میں سے جو ہمارے حکم سے کجی کرتا ہم اسے بھڑکتی آگ کا کچھ عذاب چکھاتے تھے۔
حضرت داؤد (علیہ السلام) اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) ف 1: اس سے قبل کی آیات میں بتایا تھا ۔ کہ انسان میں جب اتابت الی اللہ کا جوہر پیدا ہوجائے تو وہ آیات فطرت کو خوب سمجھنے لگتا ہے ۔ اب اس آیت میں اپنے دو بندوں کا ذکر فرمایا ہے ۔ جو منیب تھے اور بہت زیادہ فضل وبرکات کے حامل تھے ۔ حضرت داؤد اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) بابل میں ان کی بادشاہت اور شان وعظمت کا تفصیل کے ساتھ تذکرہ ہے ۔ قرآن حکیم نے نہایت مختصر انداز میں چندواقعات کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ اس لئے کہ عرب تفصیل کے ساتھ ان چیزوں سے آگاہ تھے بتانا صرف یہ مقصود ہے کہ اجابت الی اللہ کا صحیح مفہوم کیا ہے ؟ فرمایا : حضرت داؤد کو دیکھو کہ پہاڑ بھی ان کے مسخر ہیں اور باوجود اس صلابت کے جو انکا فطری خاصہ ہے ۔ داؤد کے روحانی نغموں پر جھومتے ہیں اور اس کے ساتھ تسبیح بیان کرتے ہیں ۔ پرندوں کی دیکھو وہ بہت کم مانوس ہوتے ہیں مگر داؤد کی تسبیح سے انے ننھے اور آزاد دلوں میں بھی گداز پیدا ہوجاتا ہے ۔ لوہے کے جگر میں بھی رقت پیدا ہوجاتی ہے اور وہ اللہ کی خشیت سے ان کے مبارک ہاتھوں میں نرم ہوجاتے ہے جس سے وہ زرہیں اور دیگر اسلحہ کی چیزیں بناتے ہیں *۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے لئے ہوا مسخر ہے ۔ انکا تخت ہوائی اس قدر تیز رفتار ہے کہ ایک مہینے کی منزل شام کو طے کرلیتا ہے ۔ نیز تانبے سے متعلقہ معلومات کو وہ پوری طرح جانتے ہیں *۔