مَا كَانَ إِبْرَاهِيمُ يَهُودِيًّا وَلَا نَصْرَانِيًّا وَلَٰكِن كَانَ حَنِيفًا مُّسْلِمًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ
ابراہیم نہ یہودی تھا اور نہ نصرانی، بلکہ ایک طرف والا فرمانبردار تھا اور مشرکوں سے نہ تھا۔
حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا مذہب : (ف ١) مکہ کے مشرک ، مدینے کے یہودی اور جاہل عیسائی یہ سمجھتے تھے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) میں تقریبا ایک ہزار سال کا وقفہ ہے ، پھر کس طرح یہ ممکن ہے کہ انہیں یہودی یا عیسائی کہا جائے ؟ مشرکین سے کہا کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) پورے موحد تھے ان کا دین شرک کی آلودگیوں سے قطعا پاک تھا ۔ ان کی ساری عمر شرک کے خلاف جہاد کرنے میں گزری پھر یہ کیونکر قرین قیاس ہے کہ انہیں لات وہبل کے پرستاروں میں شامل کیا جائے ۔ بات یہ ہے کہ انبیاء کا مسلک ٹھیٹ اسلام ہوتا ہے ، وہ بجز توحید اور عدل وانصاف کے اور کسی چیز کے وادار نہیں ہوتے ، انہیں ما بعد کے تعصبات میں گھیرنا سوء فہم ہے ، وہ یہودیت ‘ عیسائیت اور اس نوع کے دوسرے تعصبات سے بالا ہوتے ہیں ، وہ اسلام اور صرف اسلام پیش کرنے کے لئے تشریف لاتے ہیں ، ان کے نزدیک خدا کے بتائے ہوئے طریق کے سوا کوئی دوسرا طریق قابل اطاعت نہیں ہوتا ۔