سورة الأحزاب - آیت 46

وَدَاعِيًا إِلَى اللَّهِ بِإِذْنِهِ وَسِرَاجًا مُّنِيرًا

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور اللہ کی طرف بلانے والا اس کے اذن سے اور روشنی کرنے والا چراغ۔

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چار منصب ف 1: اس آیت میں جناب رسالت مآب کے چار منصب بیان کئے گئے ہیں :۔ (1) آپ شاہد ہیں یعنی جو کچھ کہتے ہیں اور جس چیز کو پیش کرتے ہیں ۔ وہ آپ کا وجدانی تجزیہ ہے کیونکہ آپ حق وصداقت کی منزل تک عقل واستدلال کی راہوں سے نہیں پہنچتے ہیں ۔ بلکہ مشاہدہ واحساس کے ذریعے آپ نے رسائی حاصل کی ہے ۔ (2) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے جس قدر انبیاء مبعوث ہوئے ان کے سلوب بیان پر یا تو بشارت کا رنگ غالب تھا یا انداز کا ۔ یا تو ان کے پیغام کا غالب حظہ یہ ہو تاکہ وہ لوگوں کو خدا کی بادشاہت کی خوشخبری سنائیں اور یا گناہ کے عواقب سے آگاہ کریں مگر حضور بیک وقت بشیر اور نذیر تھے ۔ آپ نے ایک ہی وقت میں تناسب کے ساتھ فتح وکامرانی کا مژدہ بھی سنایا ہے ۔ اور خدا کے عذاب کی دھمکی بھی دی ہے آپ نے ایک ساتھ مومنین کو رضت وار تقاء کی منزلوں پر گامزن بھی فرمایا ہے ۔ اور مخالفوں کو موت کے گھاٹ بھی اتارا ہے ۔ یعنی آپ میں جمالی اور جلال کا بہترین توازن تھا ۔ (3) آپ کی مرکزی تعلیم یہ تھی کہ مخلوق کو خالق کی چوکھٹ پر جھکا دیا جائے ۔ اور عملاً دنیا کو شرک کی آرائیشوں سے پاک کردیا جائے ۔ اس لئے آپ داعی الی اللہ تھے (4) سراج منیر ہونے کے معنے یہ ہیں ۔ کہ آپ کا سلسلہ فیض تمام انبیا سے زیادہ وسیع ہے ۔ اور آپ اس قابل ہیں کہ دل کی قندیلوں کو روشن کرنے کے لئے آپ سے کسب ضو کیا جائے *۔ ف 2: غرض یہ ہے کہ مسلمان خوش وخرم رہیں ۔ اطمینان رکھیں ۔ کہ عنقریب اللہ کی طرف سے ان پر فضل وکرم کی بارش ہونے والی ہے اور ان کی مایوسیاں امیدوں سے بدلنے کو ہیں ۔ فلا تطع الکفرین سے مقصود انشاء نہیں ہے ۔ بلکہ خبر ہے یعنی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ توقع رکھنا کہ وہ ان منکران حق اور منافقین کی خواہشات کفروانکار احترام کریں گے ۔ غلط ہے *۔ حل لغات :۔ شاھدا ۔ گواہ *