أَشِحَّةً عَلَيْكُمْ ۖ فَإِذَا جَاءَ الْخَوْفُ رَأَيْتَهُمْ يَنظُرُونَ إِلَيْكَ تَدُورُ أَعْيُنُهُمْ كَالَّذِي يُغْشَىٰ عَلَيْهِ مِنَ الْمَوْتِ ۖ فَإِذَا ذَهَبَ الْخَوْفُ سَلَقُوكُم بِأَلْسِنَةٍ حِدَادٍ أَشِحَّةً عَلَى الْخَيْرِ ۚ أُولَٰئِكَ لَمْ يُؤْمِنُوا فَأَحْبَطَ اللَّهُ أَعْمَالَهُمْ ۚ وَكَانَ ذَٰلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرًا
تمھارے بارے میں سخت بخیل ہیں، پس جب خوف آپہنچے تو توانھیں دیکھے گا کہ تیری طرف ایسے دیکھتے ہیں کہ ان کی آنکھیں اس شخص کی طرح گھومتی ہیں جس پر موت کی غشی طاری کی جا رہی ہو، پھر جب خوف جاتا رہے تو تمھیں تیز زبانوں کے ساتھ تکلیف دیں گے، اس حال میں کہ مال کے سخت حریص ہیں۔ یہ لوگ ایمان نہیں لائے تو اللہ نے ان کے اعمال ضائع کردیے اور یہ ہمیشہ سے اللہ پر بہت آسان ہے۔
بزدلی کی انتہا ف 1: یہ منافقین کی انتہائی بزدل اور جبن تھا ۔ کہ مخالفین کے عساکر تو آندھی کے طوفات کی تاب نہ لاکر بھاگ چکے تھے مگر یہ اس وہم میں تھے کہ وہ ابھی تک محاصرہ کئے ہوئے ہیں اور اگر یہ عساکر خدانخواستہ پھر پلٹ کر آجائیں ۔ تو ان لوگوں کی طبعاً یہ خواہش ہوگی کہ کہیں جنگل میں جاکر رہیں اور آئے دن جو جنگ وجدال ہوتا رہتا ہے ۔ اس سے محفوظ رہیں ۔ یہ لوگ سخت بزدل ہیں ۔ اور اگرچہ رونا چارا نہیں لڑنا ہی پڑے ۔ تو جی داری سے نہیں لڑتے ۔ بلکہ ان کی کوشش یہی ہوتی ہے ۔ کہ کسی طح یہ مصیبت ٹل جائے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اصل قوت جو سپاہی کو میدان جنگ میں شجاعانہ اقدام پر مجبور کرتی ہے ۔ وہ اس کا عقیدہ ہوتا ہے عقیدہ کی قوت سے وہ لڑتا ہے ۔ اور ان کی کیفیت یہ ہے کہ سرے سے کوئی عقیدہ ہی نہیں رکھتے ۔ نہ کفر کے لئے دلوں میں عصبیت ہے اور نہ ایمان کے لئے محبت ۔ اب لڑیں تو کیسے ۔ جہاد کریں تو کیونکر *۔