وَإِذَا أَذَقْنَا النَّاسَ رَحْمَةً فَرِحُوا بِهَا ۖ وَإِن تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيهِمْ إِذَا هُمْ يَقْنَطُونَ
اور جب ہم لوگوں کو کوئی رحمت چکھاتے ہیں وہ اس سے خوش ہوجاتے ہیں اور اگر انھیں کوئی برائی پہنچتی ہے، اس کی وجہ سے جو ان کے ہاتھوں نے آگے بھیجا تو اچانک وہ ناامید ہوجاتے ہیں۔
ف 1: ان آیات میں انسانی نفسیات بیان فرمائی ہیں ۔ کہ کیونکر وہ حالات کے عدم توازن سے اپنے دماغی توازن کو کھوبیٹھتا ہے اور یہ نہیں سمجھتا کہ یہ سب انقلابات اللہ کی طرف سے ہیں ۔ اور ناگریز ہیں جب اس کو تکلیف پہنچتی ہے ۔ تو پھر خلوص قلب کے ساتھ اللہ کے سامنے جھکتا ہے ! اور رو رو کر دعائیں مانگتا ہے اور اللہ کی رحمت وشفقت سے دوچار ہوتا ہے ۔ تو پھر اللہ کے ساتھ اپنی کوششوں اور نتائج کو شریک و سہیم ٹھہرا لیتا ہے ۔ حالانکہ یہ کفر ہے ۔ اور اس کے لئے کوئی دلیل نہیں ۔ پھر زندگی کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ مسرت میں یہ انسان بہت خوش ہوتا ہے ۔ اور تکلیف میں جو سراسر ان کے اعمال کا نتیجہ ہوتی ہے ۔ مایوس ہوجاتا ہے ۔ حالانکہ نہ مسرت میں آپے سے باہر ہونے کی ضرورت ہے اور نہ تکلیف میں مایوس ہونے کی حاجت ، رزق کی کشائش اور آسودگی یکسر اللہ کے ہاتھ میں ہے ۔ وہ جس شخص کو جب چاہتا ہے ۔ دولت سے نواز دیتا ہے ۔ اور جب چاہتا ہے ۔ بڑوں بڑوں کو افلاس اور حسرت کی زندگی پر مجبور کردیتا ہے ۔ اس لئے مرد مومن کا فرض یہ ہے کہ وہ حالات کی مساعدت اور نامور فقت سے بالکل بےنیاز ہوجائے اور ہر حالت میں اللہ کا شاکررہے ۔ ع ۔ (پورے ہیں وہی مروجوہرحال میں خوش ہیں) حل لغات :۔ یقنطون ۔ قنوط سے ہے ۔ مایوسی ، بددل 'زکوٰۃ یہاں عام صدقات کے معنوں میں ہے *۔