وَقَالُوا لَوْلَا أُنزِلَ عَلَيْهِ آيَاتٌ مِّن رَّبِّهِ ۖ قُلْ إِنَّمَا الْآيَاتُ عِندَ اللَّهِ وَإِنَّمَا أَنَا نَذِيرٌ مُّبِينٌ
اور انھوں نے کہا اس پر اس کے رب کی طرف سے کسی قسم کی نشانیاں کیوں نہیں اتاری گئیں، کہہ دے نشانیاں تو سب اللہ ہی کے پاس ہیں اور میں تو صرف ایک کھلم کھلا ڈرانے والاہوں۔
ف 1: نزول قران سے پیشتر لوگوں میں معجزہ طلبی کا مرض پھیل چکا تھا اور انسان دماغ اس حت تک نسبت ہوچکا تھا ۔ کہ جب تک کرشمہ وعجائب سے ان کی آنکھوں میں چکا چوند نہ پیدا کی جاتی کسی حقیقت کہ ماننے کے لئے تیار ہی نہیں ہوتے تھے ۔ گویا ان کے نزدیک صدق وراستی کا معیار تجربہ وعمل نہ تھا ۔ بلکہ یہ بات تھی کہ اس پیش کرنے والا کس درجہ غرائب ونوا اور پر قادر ہے ۔ چنانچہ حضور (علیہ السلام) نے اسلام کی ٹھوس اور سچی تعلیمات کو پیش کیا ۔ تو ان لوگوں نے اسی ذہنیت کے ماتحت کہا ۔ کہ ہم ان باتوں کو اس وقت تک ماننے کے لئے آمادہ نہیں ۔ جب تک کہ آپ معجزات نہ دکھائیں ۔ اور حیرت زانشانیوں کو پیش نہ کریں ۔ ان آیات میں ان کی ذہنیت کا جواب دیا ہے ۔ ارشاد ہے کہ ظالموں یہ چیز پیغمبر کے فرائض میں داخل نہیں ہے کہ وہ تعلیم کے ساتھ خوارق کو بھی پیش کرے اور نہ یہ صداقت کا معیار ہے کہ اس کو پیش کرنے والا قدرت اور فطرت کے امور میں تصرف کا دعویدار بھی ہو ۔ پیغمبر تو صرف اس بات کا ذمہ دار ہے کہ وہ کچھ پیش کرے وہ حق ہو ۔ درست ہو ۔ اور بنی نوح انسان کے لئے ارتقاع عروج کا باعث ہو ۔ فرمایا نشانیاں اللہ کے قبضہ اختیار میں ہیں ۔ میں تو اس کی طرف سے محض اس لئے مامور ہوں ۔ کہ تمہاری اصلاح کروں اور تم کو گناہ ومعصیت کے انجام بد سے آگاہ کروں * اور اگر تم معجزہ ہی دیکھنا چاہتے ہو تو قرآن کو دیکھو یہ سب سے بڑا معجزہ ہے ۔ اس میں رحمت وتذکار کا وافر سامان موجود ہے ۔ شرط یہ ہے کہ تمہارے دلوں میں ایمان کی روشنی ہو ۔ اور تمہارے دماغوں میں مان لینے اور تسلیم کرلینے کی صلاحیت ہو *