سورة العنكبوت - آیت 40

فَكُلًّا أَخَذْنَا بِذَنبِهِ ۖ فَمِنْهُم مَّنْ أَرْسَلْنَا عَلَيْهِ حَاصِبًا وَمِنْهُم مَّنْ أَخَذَتْهُ الصَّيْحَةُ وَمِنْهُم مَّنْ خَسَفْنَا بِهِ الْأَرْضَ وَمِنْهُم مَّنْ أَغْرَقْنَا ۚ وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيَظْلِمَهُمْ وَلَٰكِن كَانُوا أَنفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

تو ہم نے ہر ایک کو اس کے گناہ میں پکڑ لیا، پھر ان میں سے کوئی وہ تھا جس پر ہم نے پتھراؤ والی ہوا بھیجی اور ان میں سے کوئی وہ تھا جسے چیخ نے پکڑ لیا اور ان میں سے کوئی وہ تھا جسے ہم نے زمین میں دھنسا دیا اور ان میں سے کوئی وہ تھا جسے ہم نے غرق کردیا اور اللہ ایسا نہ تھا کہ ان پر ظلم کرے اور لیکن وہ خود اپنے آپ پر ظلم کرتے تھے۔

تفسیر سراج البیان - مولانا حنیف ندوی

ف 1: اس لئے ان حالات کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کا انتقام بھڑکا ۔ اور ان سب کو فنا کے گھاٹ اتار دیا گیا ۔ بعض پر پتھر برسے اور بعض کو چیخ اور شدید آواز نے موت کی نیند سلادیا ۔ بعض زمین میں دھنس گئے ۔ اور بعض پانی میں ڈوب گئے *۔ اللہ عذاب کو پسند نہیں کرتا ف 1: وماکان اللہ یطبھم سے مقصود یہ ہے کہ اللہ کا عذاب اس طرح نہیں آتا ۔ کہ وہ یونہی بلا کسی عذر اور وجہ کے غیض وغضب سے بےتاب ہوجائے ۔ اور اپنے بندوں کو ہلاک کردے ۔ بلکہ ہوتا یہ ہے ۔ کہ جب بندے اس کی مہربانیوں کو ٹھکرادیتے ہیں ۔ اس کے پیغام محبت وشفقت کو نہیں مانتے ۔ جب وہ بلاتا ہے ۔ اور یہ اکڑتے ہیں ۔ جب وہ فضل وکرم سے نوازنا چاہتا ہے ۔ تو یہ اپنے لئے غضب اور ناراضگی کو پسند کرتے ہیں جب وہ جنت کے دروازوں کو دا کرتا ہے ۔ اور یہ جہنم کی طرف دوڑتے ہیں ۔ وہ انہیں باقی رکھنا چاہتا ہے ۔ اور یہ فنا کی طرف لپکتے ہیں ۔ اور جب وہ انہیں دنیا کی سرداری بخشنا چاہتا ہے ۔ تو یہ ذلت ورسوائی اختیار کرتے ہیں ۔ تو اس وقت اس کا قاعدہ ہے ۔ کہ ایسے ناشکروں اور نااہلوں سے زمین کو پاک کردیا جائے ۔ ورنہ اس سے زیادہ رحیم اور کون ہوسکتا ہے ؟ جس نے کہ ان کو پیدا کیا خلعت وجود بخشا ۔ زندگی عنایت کی ۔ اور کائنات کو ان کی خدمت پر مامور کردیا ۔ کیا یہ سارے انتظامات اس نے محض اس لئے کئے ہیں کہ اپنے بندوں کو یونہی غصہ میں آکر ہلاک کردیے ۔ نہیں وہ قطعاً نہیں چاہتا ۔ کہ اس کے بندے فنا اور عذاب کی آغوش میں جائیں ۔ اسی لئے وہ پیغمبر بھیجتا ہے ۔ کتابیں نازل کرتا ہے ۔ معجزات اور خوارق سے ان کو ہوش میں لانے کی کوشش کرتا ہے ۔ تاکہ وہ سمجھیں ۔ اور اللہ کے پیغام کو عقیدت سے سنیں ۔ اور دنیا وعقبے کی نعمتوں سے بہرہ وار ہوں ۔ مگر جب یہ لوگ باوجود ان خواز اشہائے بےحد کی گمراہی پر قائم ہوں ۔ تو پھر سوائے ہلاکت کے اور کیا طرز عمل موزوں ہوسکتا ہے *۔ حل لغات :۔ حاصباً ۔ حصباء سے ہے یعنی پتھروں کی بارش *۔